کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 1120
کرنے کے اثر سے۔ یہ ان کا وصف تورات میں ہے اور انجیل میں ان کا وصف اس کھیتی کی طرح ہے جس نے اپنی کونپل نکالی، پھر اسے مضبوط کیا، پھر وہ موٹی ہوئی، پھر اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہو گئی، کاشت کرنے والوں کو خوش کرتی ہے، تاکہ وہ ان کے ذریعہ سے کافروں کو غصہ دلائے، اللہ نے ان لوگوں سے جو ان میں سے ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے بڑی بخشش اور بہت بڑے اجر کا وعدہ کیا ہے۔‘‘
یہ آیت کریمہ سبِّ صحابہ کی حرمت پر اس طرح دلالت کرتی ہے کہ ان کو وہی شخص گالیاں دے سکتا ہے جس کے دل میں ان کے خلاف بغض و کدورت اور غصہ ہو اور اس آیت میں اللہ نے واضح فرمایا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں کی ترقی کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کفار کو چڑاتا ہے، اور وہ ان سے چڑتے ہیں، نہ کہ مسلمان۔ پس ا س طرح یہ آیت اصحاب رسول کو گالی گلوچ دینے اور ان کے باہمی لڑائیوں کو لے کر تنقیص کے طور سے ان پر زبان درازی کرنے کو حرام قرار دیتی ہے۔
(د):… ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
((لَا تَسُبُّوْا أَصْحَابِیْ، فَوَ الَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَوْ أَنَّ أَحَدَکُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحَدٍ ذَہَبًا مَا أَدْرَکَ مُدَّ أَحَدِہِمْ وَلَا نَصِیْفِہٖ۔))[1]
’’میرے صحابہ کو برا بھلا نہ کہو کیونکہ تم میں سے ایک شخص احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کردے تو ان کے ایک مد جو کو نہیں پہنچ سکتا اور نہ اس کے نصف کو۔‘‘
یہ حدیث صحابہ کرام کو سب و تشم کرنے کی ممانعت، اس عمل بد سے لوگوں کو ڈرانے اور انھیں برا بھلا کہنے کی صراحتاً تحریم پر مشتمل ہے، اِس باب میں اس معنی کی اور بھی بہت ساری احادیث ہیں۔[2]
صحابہ کرام کو برا بھلا کہنے سے اسلاف امت کی ممانعت:
اس سلسلہ میں صحابہ و تابعین اور دیگر اسلاف امت و ائمہ اسلام سے بہت سارے اقوال منقول ہیں، یہاں صرف چند ایک کو ذکر کیا جارہا ہے:
٭ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’جب تم کسی آدمی کے منہ سے اصحاب رسول کو برا بھلا کہتے سنو تو اس کے اسلام پر یقین نہ کرو۔‘‘[3]
٭ امام ابوزرعہ رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’جب کسی آدمی کو کسی صحابی رسول کی ہتک کرتے دیکھو تو جان لو کہ وہ زندیق ہے، کیونکہ رسول ہمارے نزدیک برحق ہیں اور قرآن برحق ہے، قرآن اور سنتوں کو ہم تک انھیں اصحاب رسول نے پہنچایا ہے، یہ لوگ چاہتے ہیں کہ ہمارے ان گواہوں کو مجروح کردیں تاکہ کتاب و سنت کوباطل ٹھہرا دیں، حالانکہ انھیں زندیقوں پر جرح کرنا زیادہ بہتر ہے۔‘‘[4]
[1] تفسیر ابن کثیر (3/525)۔
[2] عقیدۃ أہل السنۃ فی الصحابۃ (2/833)۔
[3] تفسیر ابن کثیر (3/833)۔