کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 1119
باتیں منسوب کی جائیں یا بیان کی جائیں، انھوں نے نہیں کی ہیں۔[1]
صحابہ کرام کو گالیاں دینے کی حرمت اس آیت سے یوں ثابت ہوتی ہے کہ یہ لوگ مومنوں کے صف اوّل میں ہیں، کیونکہ پورے قرآن میں ہر وہ آیت جس کا آغاز يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا (البقرہ:104) سے ہو یا إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ (الکہف:107) سے ہوا اس کے اولین مخاطب صحابہ ہی رہے۔ پس یہ آیت صحابہ کرام کو سب و شتم کرنے کی حرمت پر واضح دلیل ہے۔ لہٰذا انھیں سب و شتم کرنا اور ان کی شان میں کسی بھی طرح کی گستاخی کرنا، انھیں سب سے زیادہ تکلیف دینے کے مترادف ہے، کیونکہ ایسا کرنے والے نے مومنوں کی چنندہ جماعت کو ناکردہ گناہوں کے ذریعہ سے متہم کرکے اسے تکلیف پہنچائی اور آیت کریمہ میں مذکورہ وعید کا وہی بدقسمت مستحق ٹھہرا۔[2]
حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: اس وعید میں سب سے زیادہ کفار و مشرکین شامل ہیں، پھر وہ روافض جو صحابہ کی تنقیص کرتے ہیں اور ان پر ایسے عیوب لگاتے ہیں جن سے اللہ نے انھیں پاک کررکھا ہے، ان کے بارے میں اللہ نے جن خوبیوں کو سراہا ہے، یہ لوگ انھیں ان کے برخلاف اوصاف سے متصف کرتے ہیں، آپ خود دیکھیں کہ اللہ نے ان کے بارے میں بتایا کہ وہ مہاجرین و انصار سے راضی ہوا اور اس نے ان کی تعریف فرمائی، لیکن یہ کند ذہن جہلاء ہیں جو انھیں گالیاں دیتے ہیں ان کی تنقیص کرتے ہیں اور ان کے بارے میں ایسی ایسی باتیں کرتے ہیں جو کبھی نہیں ہوئیں اور نہ انھوں نے کبھی ویسا کیا۔ حقیقت میں ان کے دل دماغ دونوں الٹے ہوئے ہیں، یہ لوگ مدح و ثنا کے پیکر انسانوں کی مذمت کرتے ہیں اور مذمتوں میں لت پت انسانوں کی تعریف کرتے ہیں۔[3]
(ج):… اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّـهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّـهِ وَرِضْوَانًا ۖ سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ۚ ذَٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ ۚ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَىٰ عَلَىٰ سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ ۗ وَعَدَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا ﴿٢٩﴾ (الفتح:29)
’’محمد اللہ کے رسول ہیں اور وہ لوگ جو ان کے ساتھ ہیں کافروں پر بہت سخت ہیں، آپس میں نہایت رحم دل ہیں، آپ انھیں اس حال میں دیکھیں گے کہ رکوع کرنے والے ہیں، سجدہ کرنے والے ہیں، اپنے رب کا فضل اور (اس کی) رضا ڈھونڈتے ہیں، ان کی شناخت ان کے چہروں میں (موجود) ہے، سجدہ
[1] منہاج السنۃ (1/153)۔
[2] عقیدۃ أہل السنۃ فی الصحابۃ (2/832)۔
[3] تفسیر السعدی (6/121)۔
[4] مسند أحمد (4/87)۔