کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 1117
متقدمین و متاخرین تمام اہل سنت و جماعت نے اس آیت سے یہی سمجھا ہے کہ اس میں بعد میں آنے والوں کو پہلے والوں کے لیے اور خلف کو سلف یعنی اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دعا و استغفار کا حکم دیا گیا ہے، چنانچہ امام مسلم نے اپنی سند سے ہشام بن عروہ سے، انھوں نے اپنے باپ سے اور انھوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے کہ مجھ سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: اے میرے بھانجے! وہ حکم دیے گئے تھے کہ اصحاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے استغفار کریں، تو انھوں نے ان کو گالیاں دیں۔[1]
ابن بطہ وغیرہ نے ابوبدر کی حدیث سے روایت کیا ہے کہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے فرمایا: لوگوں کے تین درجات رہے ہیں، دو درجات والے گزر چکے ہیں، صرف ایک درجہ والے باقی ہیں، تمھارے لیے سب سے اچھی بات یہی ہے کہ تم اس درجہ و مقام پر قائم رہو، پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: لِلْفُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّـهِ وَرِضْوَانًا (الحشر:8) یہ مہاجرین کا درجہ تھا جو کہ گزر چکے۔ پھر یہ آیت پڑھی: وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِن قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِّمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُونَ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ۚ (الحشر:9) یہ دوسرا درجہ تھا جس پر انصار فائز تھے اور وہ گزر چکے۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ ﴿١٠﴾ (الحشر:10) پس پہلے دو درجات والے گزر چکے، اب یہ آخری درجہ باقی ہے اس درجہ کو پانے کے لیے تم پہلے دونوں درجہ والوں کے لیے دعائے مغفرت کرو۔[2]
اس حدیث کے پیش نظر معمولی سے معمولی علم رکھنے والے کو یہ تردد نہیں ہونا چاہیے کہ روافض شیعہ اس درجہ سے خارج ہیں، کیونکہ انھوں نے صحابہ پر نہ دعائے رحمت کی اور نہ دعائے مغفرت، بلکہ انھیں گالیاں دیں اور ان کے خلاف اپنے سینوں میں بغض و کینہ رکھا، پس وہ درجہ و مرتبہ جس پر ہر مسلمان کو تادم حیات قائم رہنا چاہیے اس سے یہ لوگ محروم ہیں۔[3]
امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ آیات مہاجرین و انصار اور ان کے بعد آنے والے ان لوگوں کی مدح و ستائش پر مشتمل ہیں جو ان کے لیے استغفار کرتے ہیں اور اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ ہمارے دلوں میں ان کے خلاف کوئی بغض و کینہ پیدا نہ ہو نیز یہ کہ اسی قسم کے لوگ فے کے مستحق ہیں۔ پس بلاشبہ روافض ان تینوں قسموں سے
[1] شرح ألفیۃ العراقی المعروف بالتبصرۃ و التذکرۃ (3/13،14)۔
[2] الإصابۃ (1/17)۔
[3] عقیدۃ أہل السنۃ والجماعۃ (2/813)۔
[4] تفسیر القرطبی (18/32)۔