کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 1116
کو اجتہادی لغزش پر محمول کرتے ہوئے کہ وہ سب کے سب عادل ہیں۔ [1] ح: حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے عدالت صحابہ پر اہل سنت کا اجماع واضح کرتے ہوئے فرمایاہے کہ اہل سنت اس بات پر متفق ہیں کہ تمام صحابہ عادل ہیں اور اس سلسلہ میں چند مبتدعین کے علاوہ کوئی ان کا مخالف نہیں ہے۔[2] مختصر یہ کہ مذکورہ ائمہ اسلام کے یہ مبارک اقوال و بیانات اس بات کی واضح اور قطعی دلیل ہیں کہ عموماً تمام صحابہ کرام کی عدالت ایک مسلّمہ حقیقت ہے اور اب ان کے بارے میں بحث و گفتگو کی کوئی ضرورت نہیں رہی، پس ان کی عدالت پر تصدیقِ الٰہی، شہادت شہادت اور اجماعِ امت کی مہر لگ جانے کے بعد کسی کو کوئی شک کرنے کی اجازت اور گنجائش نہیں ہے۔[3] (2) صحابہ سے واجبی محبت اور ان کے لیے دعا و استغفار: اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے واجبی محبت، ان کی تعظیم و توقیر اور اعزاز و اکرام، ان کے اجماع کی حجیت کا اقرار، ان کی اقتداء اور ان میں کسی ایک کے تئیں بھی بغض و نفرت کی حرمت اہل سنت وجماعت کے عقائد کا ایک حصہ ہے۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انھیں اپنے رسول کی صحبت سے مشرف کیا اور دینِ اسلام کی مدد کی خاطر انھیں رسول کے ساتھ جہاد کرنے، مشرکین و منافقین کی اذیتوں پر صبر کرنے،اپنے وطن سے ہجرت اور اپنی جائداد کو قربان کردینے اور ان سب پر اللہ اور رسول کی محبت کو ترجیح دینے کا انھیں موقع میسر کیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ ﴿١٠﴾ (الحشر:10) ’’اور (ان کے لیے) جو ان کے بعد آئے، وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب! ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو بخش دے جنھوں نے ایمان لانے میں ہم سے پہل کی اور ہمارے دلوں میں ان لوگوں کے لیے کوئی کینہ نہ رکھ جو ایمان لائے، اے ہمارے رب !یقینا تو بے حد شفقت کرنے والا، نہایت رحم والا ہے۔‘‘ تو یہ آیت کریمہ محبت صحابہ کے وجوب پر دلیل کرتی ہے، اس لیے کہ ان کے بعد آنے والے مسلمانوں کو اللہ نے تبھی مال فے میں حصہ دار بنایا جب کہ وہ صحابہ کی محبت، ان کے تئیں ہمدردی اور ان کے لیے استغفار کریں اور جیسا کہ امام مالک وغیرہ سے مروی ہے کہ جو شخص ان سب کو یا ان میں سے کسی ایک کو گالی دے یا ان کے بارے میں برا عقیدہ رکھے، فے میں اس کا کوئی حق نہیں ہے۔ چنانچہ آپ نے فرمایا کہ جو شخص اصحاب محمد میں سے کسی سے بغض رکھتا ہو، اس کے دل میں ان کے خلاف کوئی کینہ کپٹ ہو، تو اسے مسلمانوں کے فے میں کوئی حصہ نہیں، پھر آپ نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی: وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ [4]
[1] مقدمۃ ابن الصلاح ص (146، 147)۔ [2] شرح النووی علی صحیح مسلم (15/149)۔ [3] تقریب النواوی مع شرح تقریب الراوی (2/214)۔ [4] الباعث الحثیث (181، 182)۔