کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 1115
د: ابن الصلاح نے ذکر کیا ہے کہ عدالت صحابہ پر اجماع کا انعقاد ان کے حق میں ایسی منفرد و امتیازی خصوصیت ہے جس میں کوئی دوسرا شریک نہیں۔ فرماتے ہیں:
’’تمام صحابہ کو ایک امتیازی خصوصیت حاصل ہے اور وہ یہ کہ ان میں سے کسی کی عدالت کے بارے میں کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے، اس لیے کہ یہ ایسا معاملہ ہے کہ جس سے بہت پہلے فراغت ہوچکی ہے، نصوص کتاب وسنت اور امت کی معتبر ترین اہل علم شخصیات کے اجماع کی روشنی میں وہ لوگ مطلقاً عادل ہیں۔‘‘
اور فرمایا:
’’امت مسلمہ بشمول فتنوں سے دوچار ہونے والے تمام صحابہ کی عدالت پر متفق ہے، اسی طرح ان سے حسن ظن اور ان کے شان دار کارناموں کی وجہ سے ان کی عدالت پر تمام معتبر علمائے امت بھی متفق ہیں، گویا کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے یہ اجماع اس لیے میسر کر دیا کہ وہ لوگ ناقلین شریعت تھے۔ واللہ اعلم۔‘‘ [1]
ھ: امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے صحابہ کے درمیان باہمی لڑائیوں کا ذکر، ان کی اجتہادی توجیہ اور انھیں معذور ثابت کرنے کے بعد لکھا ہے کہ اسی لیے تمام اہل حق اور اجماع میں جو لوگ معتبرہیں وہ سب اس بات سے متفق ہیں کہ تمام صحابہ کی شہادتیں اور روایات واجب القبول ہیں اور ان کی عدالت کامل و مسلّم ہے۔[2]
اور تقریب میں فرماتے ہیں کہ باجماع معتبر علمائے صحابہ سب کے سب عادل ہیں، جو ان میں فتنوں سے دوچار ہوئے وہ بھی اور جو ان سے بچ گئے وہ بھی۔[3]
و: حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کی جو مدح و توصیف کی ہے اور ان کے تمام اخلاق و افعال کو سنت نبوی میں جس طرح سراہا گیا ہے اور اللہ سے بہتر و عظیم ثواب کی امید لگا کر انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جس طرح جہاد کیا ہے، ان تمام چیزوں کو سامنے رکھتے ہوئے تمام اہل سنت و جماعت متفق ہیں کہ سب کے سب صحابہ عادل ہیں۔‘‘[4]
ز: حافظ عراقی اپنی ’’الفیہ‘‘ کی شرح میں عدالت صحابہ سے متعلق چند قرآنی آیات اور احادیث نبویہ کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: جو صحابہ فتنوں سے دوچار نہیں ہوئے ان کی عدالت پر پوری امت مسلمہ متفق ہے اور رہے وہ صحابہ جو شہادت عثمان کے بعد فتنوں سے دوچار ہوئے تو ان کی عدالت پر بھی تمام معتبر اور اجماع کے باب میں حجت مانے جانے والے علمائے شریعت کا اتفاق ہے، ان کے بارے میں حسن ظن اور ان کی لغزشوں
[1] فتح المغیث (3/115)۔
[2] الکفایۃ ص (67)۔
[3] الاستیعاب علی حاشیۃ الاصابۃ (1/8)۔
[4] فتح المغیث شرح الفیۃ الحدیث (3/112) تدریب الراوی /السیوطی (2/214)۔