کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 1114
ہے۔ اس لیے کہ یہ کسی معصوم ذات ہی کی صفت ہے۔ ابن الانباری فرماتے ہیں: ’’ان کی عدالت سے، ان کے لیے عصمت کا ثبوت فراہم کرنا ہرگز مراد نہیں اور نہ یہی مقصود ہے کہ ان سے گناہوں کا وقوع ناممکن ہے، بلکہ یہ مراد ہے کہ ان کے اسباب عدالت اور طلب تزکیہ کی بحث میں نہ پڑتے ہوئے ان کی روایات قبول کی جائیں، یہاں تک کہ کوئی قادح عدالت بات ان کے بارے میں ثابت ہوجائے اور یہ اللہ کا فضل اور احسان ہے کہ ایسی کوئی چیز ان کے حق میں ثابت نہیں ہے، ہم ان کی اسی اصلیت کے قائل ہیں جس پر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں قائم تھے یہاں تک کہ ان کے خلاف کوئی ثبوت مل جائے اور جو بعض اہل سیرت ان کے بارے میں قابل اعتراض باتیں لکھتے ہیں وہ صحیح نہیں ہیں اور جو صحیح ہیں تو ان کی صحیح اور مناسب توجیہ بھی موجود ہے۔‘‘[1] اجماع امت: اہل سنت و جماعت ا س بات سے متفق ہیں کہ صحابہ کرام بلا استثناء عادل ہیں، ان میں جو فتنوں کا شکار ہوئے اور جو ان سے محفوظ رہے دونوں میں کوئی فرق نہیں ہیں، ان کے تئیں حسن ظن کی بنا پر اور اس وجہ سے کہ اللہ نے انھیں اپنے نبی کی صحبت کے لیے منتخب کرکے انھیں اعزاز بخشا، نیز یہ کہ انھوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید و مدد کی، آپ کی طرف ہجرت کی، آپ کے سامنے جہاد کیا، دینی احکامات کی حفاظت اور اس کے حدود کی پاسداری کی، ان تمام اسباب فضائل کی بنا پر وہ سب کے سب عادل ہیں۔ اور ان کی گواہیاں اور روایات مقبول ہیں۔ اور ان کے اسباب عدالت میں بحث و کرید کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس تفصیل پر ان تمام علماء کا اجماع ہے جن کے اقوال معتبر و مستند ہیں اور ان کی عدالت پر علماء کی ایک بڑی جماعت نے اجماع نقل کیا ہے، چنانچہ: الف: خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب و سنت سے عدالت صحابہ پر دلالت کرنے والے دلائل کو ذکر کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ یہی تمام علماء اور معتبر فقہاء کا مذہب ہے۔[2] ب: ابوعمر بن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کے بارے میں اہل حق مسلمان یعنی اہل سنت و جماعت کے اجماع کے بعد اب اگرچہ ہمیں ان سے متعلق مزید کسی بحث و گفتگو کی ضرورت نہیں تھی، لیکن ہم کہتے ہیں کہ وہ سب کے سب عادل تھے، لہٰذا ان کے ناموں سے واقفیت ضروری ہے۔[3] ج: امام الحرمین جوینی رحمۃ اللہ علیہ نے صحابہ کی عدالت پر اجماع نقل کرتے ہوئے اس کی تعلیل اس طرح کی ہے: ’’عدالت صحابہ پر اجماع ہونے کا سبب شاید یہ ہے کہ وہ ناقلین شریعت ہیں، لہٰذا، اگر ان کی روایت بحث و تحقیق کی محتاج ہو اور باعث توقف بن جائے تو اسلامی شریعت عصر نبوت تک محدود ہو کر رہ جائے گی اور ہر دور کے قابل نہ ہوگی۔‘‘[4]
[1] الإحسان بترتیب صحیح ابن حبان (1/91)۔ [2] صحیح البخاری حدیث نمبر (3673) و صحیح مسلم (2541)۔ [3] فتح المغیث شرح ألفیۃ الحدیث (3/110، 111)۔ [4] عقیدۃ أہل السنۃ و الجماعۃ فی الصحابۃ (2/809)۔