کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 1113
ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ فرمان نبوی ((أَ لَا لِیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ مِنْکُمُ الْغَائِبَ۔)) اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ صحابہ کرام سب کے سب عادل ہیں ان میں کوئی مجروح اور ضعیف نہیں، کیونکہ اگر ان میں کوئی غیر عادل ہوتا تو آپ اس کو مستثنیٰ کرتے ہوئے یوں فرماتے: دیکھو! تم میں فلاں اور فلاں کو چاہیے کہ جو لوگ یہاں حاضر نہیں ہیں، وہ ان تک ہماری بات پہنچا دیں، لیکن چونکہ مجمل طور سے وہاں موجود تمام لوگوں کو بعد والوں تک پہنچانے کا حکم دیا تو یہ اس بات کی دلیل ٹھہری کہ وہ سب کے سب عادل ہیں اور جن کی عدالت کی شہادت نبی دے دیں ان کے شرف و عظمت کا کیا کہنا۔[1]
امام بخاری نے اپنی سند سے ابوسعید خدری سے روایت کیا ہے کہ انھوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((لَا تَسُبُّوْا أَصْحَابِیْ فَلَوْ أَنَّ أَحَدَکُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحَدٍ ذَہَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِہِمْ وَ لَا نَصِیْفِہٖ۔))[2]
’’میرے صحابہ کو برا بھلا نہ کہو کیونکہ تم میں سے اگر کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کردے، تو ان کے ایک مد کو نہیں پہنچ سکتا اور نہ ان کے آدھے مد کو۔‘‘
یہ حدیث عدالت صحابہ پر اس طرح دلالت کرتی ہے کہ انھیں غیر عادل کہنا، گویا انھیں برا بھلا کہنے کے مترادف ہے، خاص طور سے اس واقعہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعض صحابہ کو ان صحابہ پر طنز کرنے سے منع فرمایا ہے جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رتبہ اور مقام میں اس لیے بلند ٹھہرایا تھا کہ انھوں نے انتہائی اہم مواقف میں اپنی پرخلوص شرکت کا ثبوت پیش کیا تھا۔ تو ایسی صورت میں ان تمام صحابہ کے بعد آنے والی نسل کو ان میں سے کسی پر طنز و تعریض کا حق بدرجہ اولیٰ نہیں ملتا۔[3] چنانچہ تمام صحابہ اپنی عدالت کی صداقت پر اللہ اور اس کے رسول کی گواہی اور ان دونوں کی تعریف پاجانے کے بعد ’’عدالت‘‘ کے مستحق ہوجاتے ہیں اور اب انھیں اس بات کی کوئی ضرورت نہیں رہتی کہ مخلوقات میں سے کوئی ان کے ’’عادل‘‘ ہونے کا ثبوت فراہم کرے تبھی وہ عادل ہوں گے۔[4] نیز اگر کتاب اللہ اور سنت رسول میں ان کی عدالت پر شہادت نہ بھی موجود ہوتی تو دین الٰہی کی نصرت و تائید میں انھوں نے جو عظیم الشان کارنامے انجام دیے اور بھرپور بھلائیوں کا ثبوت دیا، وہ متواتر روایات میں موجود ہیں، انھی حقائق کے حوالہ جات سے ہر سلیم الفطرت اور عقل مند انسان ان کی عدالت کا اعتراف کرتا ہے کیونکہ انھوں نے دنیا کے ہر خطہ میں کلمۂ حق کی نصرت و تائید، اس کی علم برداری، اس کے احکام کی نشر و اشاعت اور اس کے قواعد کے استحکام کے لیے ہر ممکن کوشش کی تھی۔
یہاں ایک بات واضح رہے کہ یہاں جس عدالت کی بات ہو رہی ہے اس سے معصوم عن الخطا ہونا مراد نہیں
[1] عقیدۃ أہل السنۃ فی الصحابۃ (2/807)۔
[2] صحیح البخاری (67، 105) و صحیح مسلم (1679) الإحسان بترتیب صحیح ابن حبان (1/91)۔
[3] عقیدۃ أہل السنۃ والجماعۃ فی الصحابۃ (2/807)۔