کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 1112
جگہ بنا لی ہے، وہ ان سے محبت کرتے ہیں جو ہجرت کر کے ان کی طرف آئیں اور وہ اپنے سینوں میں اس چیز کی کوئی خواہش نہیں پاتے جو ان (مہاجرین) کو دی جائے اور اپنے آپ پر ترجیح دیتے ہیں، خواہ انھیں سخت حاجت ہو اور جو کوئی اپنے نفس کی حرص سے بچا لیا گیا تو وہی لوگ ہیں جو کامیاب ہیں۔‘‘
یہ دونوں آیات نہایت اہم اور عظیم ہیں، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے پہلی آیت کے اختتامی کلمہ ’’الصادقون‘‘ کی تفسیر مہاجرین سے اور دوسری آیت کے اختتامی کلمہ ’’المفلحون‘‘ کی تفسیر انصار سے کی ہے، چنانچہ سقیفہ بنو ساعدہ کی مجلس میں انصار کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایاتھا: اللہ تعالیٰ نے ہمیں ’’الصادقین‘‘ اور تمھیں ’’المفلحین‘‘ کا نام دیا ہے اور تمھیں حکم دیا ہے کہ تم بھی وہیں رہو جہاں ہم رہیں، فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ ﴿١١٩﴾ (التوبۃ:119)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کے ساتھ ہو جاؤ۔‘‘
پس ان دونوں آیات میں جن اوصاف حمیدہ کا تذکرہ ہے انھیں مہاجرین و انصار نے ثابت کر دکھایا اور ہمیشہ ان سے متصف رہے، اسی لیے مہاجرین کے اوصاف کو ذکر کرتے ہوئے آخر میں ان پر ’’صادقین‘‘ کا حکم لگایا، اور جن لوگوں نے ان مہاجرین کی تائید کی، انھیں مدد دی اور اپنی ذات پر انھیں ترجیح دی، ان پر ’’مفلحون‘‘ کا حکم لگایا او ریہ ایسے بلند اوصاف ہیں جنھیں کوئی غیر عادل قوم اپنی عملی زندگی میں ثابت نہیں کرسکتی، لہٰذا میں نے جن آیات بینات کو ذکر کیا ہے جو کہ عدالت صحابہ پر بڑے واضح دلائل ہیں۔[1]
احادیث سے دلائل:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بے شمار احادیث میں ان کے نیک اوصاف کا ذکر فرمایا ہے اور انھیں عادل قرار دیتے ہوئے ان کی مدح سرائی کی ہے، چند احادیث کا تذکرہ یہاں فائدہ سے خالی نہ ہوگا۔
صحیحین میں ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((أَ لَا لِیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ مِنْکُمُ الْغَائِبَ۔))[2]
’’سن لو! تم میں جو حاضر ہے وہ غائب کو پہنچا دے۔‘‘
اس حدیث سے عدالت صحابہ پر استدلال یوں ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر صحابہ کرام کی بڑی بھاری تعداد کی موجودگی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی تھی، اور انھیں اس بات کے لیے مکلف کیا تھا کہ انھوں نے آپ سے جو کچھ سنا ہے اسے ان لوگوں تک پہنچادیں جو اس اجتماع عظیم میں حاضر نہیں ہیں، آپ نے یہ حکم تمام صحابہ کو دیا، اور کسی کو اس سے مستثنیٰ نہیں کیا، پس یہ واقعہ ان کی عدالت کے ثبوت کی سب سے بڑی دلیل ہے۔[3]
[1] تفسیر القرطبی (16/299)۔