کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 1111
میں سے ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے بڑی بخشش اور بہت بڑے اجر کا وعدہ کیا ہے۔‘‘ پس اس آیت کریمہ کے حوالہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنی آسمانی کتب میں صحابہ سے متعلق جن اوصاف حمیدہ کا ذکر فرمایا ہے اور یہاں جس انداز میں ان کی مدح کی ہے ان چیزوں کے ہوتے ہوئے ان کی عدالت میں شک و شبہ کا وسوسہ تک نہیں گزرتا؟ امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ تمام صحابہ عادل ہیں، اس امت میں انبیاء اور رسولوں کے بعد وہ لوگ کائنات کی سب سے بہترین مخلوق اور اللہ کے سب سے برگزیدہ بندے ہیں، ایک چھوٹی سی جماعت جس کی کوئی اہمیت اور شمار نہیں، کا نظریہ ہے کہ احوال صحابہ بھی عام انسانوں کی طرح ہیں، اس لیے ان کی عدالت پر بحث کرنا ضروری ہے، جب کہ اسی جماعت کے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ شروع اسلام میں وہ سب ٹھیک ٹھاک تھے، اور عدالت پر قائم تھے، لیکن بعد میں حالات و ظروف نے پلٹا کھایا، ان میں باہمی جنگیں اور خون ریزیاں ہوئیں، اس لیے انھیں بھی بحث و تحقیق کی کسوٹی پر رکھا جانا ضروری ہے۔ حالانکہ ان لوگوں کا یہ نظریہ ناقابل توجہ اور غلط ہے اس لیے کہ صحابہ کرام کی چنندہ اور افضل ترین شخصیات مثلاً علی، طلحہ اور زبیر وغیرہ رضی اللہ عنہم مدح و ثنائِ الٰہی سے نوازی گئیں اور اللہ نے ان کا تزکیہ کیا، وہ خود راضی ہوا اورانھیں راضی کیا اور انھیں مغفرت اور اجر عظیم کا مژدہ سناتے ہوئے جنت میں داخل کرنے کا وعدہ کیا اور خاص طور سے وہ دس صحابہ نمونہ ٹھہرے جنھیں حدیث رسول کی روشنی میں قطعیت کے ساتھ جنت کی بشارت مل چکی ہے۔ حالانکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی کے مطابق دور نبوت کے بعد متعدد آزمائشوں اور فتنوں سے گزرنے کا انھیں بخوبی علم تھا۔ تو ان کی باہمی خون ریزی اور فتنوں سے دوچار مراحل ان کے رتبوں اور عظمتوں کو ساقط کرنے والے نہیں ہیں کیونکہ یہ ساری باتیں اجتہاد پر مبنی تھیں۔[1] اللہ تعالیٰ نے فرمایا: لِلْفُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّـهِ وَرِضْوَانًا وَيَنصُرُونَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ ۚ أُولَـٰئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ ﴿٨﴾ وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِن قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِّمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُونَ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ۚ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴿٩﴾ (الحشر: 8، 9) ’’(یہ مال) ان محتاج گھر بار چھوڑنے والوں کے لیے ہے جو اپنے گھروں اور اپنے اموال سے نکال باہر کیے گئے۔ وہ اللہ کی طرف سے کچھ فضل اور رضا تلاش کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں، یہی لوگ ہیں جو سچے ہیں۔ اور (ان کے لیے) جنھوں نے ان سے پہلے اس گھر میں اور ایمان میں
[1] عقیدۃ أہل السنۃ فی الصحابۃ (2/802)۔