کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 1110
اور اللہ کا ارشاد ہے:
وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّـهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ﴿١٠٠﴾ (التوبۃ:100)
’’اور مہاجرین اور انصار میں سے سبقت کرنے والے سب سے پہلے لوگ اور وہ لوگ جو نیکی کے ساتھ ان کے پیچھے آئے، اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اس سے راضی ہوگئے اور اس نے ان کے لیے ایسے باغات تیار کیے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں ہمیشہ۔ یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔‘‘
یہ آیت کریمہ عدالت صحابہ پر اس طرح دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں ان سے اپنی رضامندی کا اعلان کیا ہے اور اس کی رضا مندی کا حق دار وہی ہوسکتا ہے، جو اس کی رضا کا اہل ہو اوریہ اہلیت ہر کس و ناکس کو نہیں بلکہ صرف اسی کو مل سکتی ہے جو اپنے تمام تر معاملات میں استقامت پر اور مذہبی زندگی میں عدالت پر قائم ہو۔ پس جس شخص کی تعریف اللہ نے اس طرح کی ہو وہ بھلا عادل کیوں نہیں ہوسکتا؟ اور اگرکسی دو عام آدمیوں کی شہادت سے کسی کی عدالت ثابت ہوسکتی ہے تو رب العالمین کی شہادت کے بعد دنیا کی سب سے برگزیدہ شخصیات کی عدالت کیوں نہیں ثابت ہوسکتی۔[1]
اور فرمان الٰہی ہے:
مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّـهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّـهِ وَرِضْوَانًا ۖ سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ۚ ذَٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ ۚ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَىٰ عَلَىٰ سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ ۗ وَعَدَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا ﴿٢٩﴾ (الفتح:29)
’’محمد اللہ کے رسول ہیں اور وہ لوگ جو ان کے ساتھ ہیں کافروں پر بہت سخت ہیں، آپس میں نہایت رحم دل ہیں، آپ انھیں اس حال میں دیکھیں گے کہ رکوع کرنے والے ہیں، سجدہ کرنے والے ہیں، اپنے رب کا فضل اور (اس کی) رضا ڈھونڈتے ہیں، ان کی شناخت ان کے چہروں میں (موجود) ہے، سجدہ کرنے کے اثر سے۔ یہ ان کا وصف تورات میں ہے اور انجیل میں ان کا وصف اس کھیتی کی طرح ہے جس نے اپنی کونپل نکالی، پھر اسے مضبوط کیا، پھر وہ موٹی ہوئی، پھر اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہو گئی، کاشت کرنے والوں کو خوش کرتی ہے، تاکہ وہ ان کے ذریعہ کافروں کو غصہ دلائے، اللہ نے ان لوگوں سے جو ان
[1] ظفر الأمانی فی مختصر الجرجانی /لکھنوی ص (506، 507)۔
[2] عقیدہ أہل السنۃ و الجماعۃ فی الصحابۃ الکرام (2/800)۔
[3] الکفایۃ الخطیب بغدادی / ص:(64)۔