کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 1109
تھے اور اس سے بے انتہا احتراز کرتے تھے، جیسا کہ یہ بات اصحاب سیرت سے مخفی نہیں ہے۔[1]
کتاب و سنت میں عدالت صحابہ کے دلائل بھرے پڑے ہیں، انھیں دیکھنے کے بعد ان کی عدالت میں کسی کو شک کرنے کی گنجائش نہیں رہنا چاہیے، پس کسی بھی حدیثِ متصل پر اس وقت تک عمل کرنا لازم نہیں ٹھہرتا جب تک کہ صحابیٔ رسول کے علاوہ بقیہ تمام رواۃ حدیث سے عدالت ثابت نہیں ہوجاتی اور ان کی زندگی احاطہ نہیں کرلیا جائے۔ البتہ حدیث کے ناقل صحابی کی عدالت کی تحقیق کی ضرورت اس لیے نہیں پڑتی کہ قرآن مجید میں ان کی عدالت، باطنی طہارت اور برگزیدگی و حسن انتخاب کی شہادت اللہ نے دے دی ہے۔[2] یہاں چند ایک دلائل ذکر کیے جاتے ہیں:
قرآنی دلائل:
اللہ کا ارشاد ہے:
وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا ۗ (البقرۃ:143)
’’اور اسی طرح ہم نے تمھیں سب سے بہتر امت بنایا، تاکہ تم لوگوں پر شہادت دینے والے بنو اور رسول تم پر شہادت دینے والا بنے۔‘‘
وجہ استدلال یوں ہے کہ اس آیت کے مخاطب راست طور سے صحابہ ہیں اور انھیں ’’وسط‘‘ یعنی عادل قرار دیا گیا ہے۔ اور فرمایا:
كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ ۗ (آل عمران:110)
’’تم سب سے بہتر امت چلے آئے ہو، جو لوگوں کے لیے نکالی گئی، تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘
یہ آیت عدالت صحابہ پر اس طرح دلالت کرتی ہے کہ اس امت کو گزشتہ تمام امتوں پر مطلقاً فضیلت دی گئی ہے اور اس افضلیت و خیریت میں سب سے پہلے وہ لوگ داخل ہیں جو اس کے نزول کے وقت اس کے اولین مخاطب رہے اور وہ صحابہ کرام ہیں۔ پس بزبان الٰہی، ان کی افضلیت اور خیریت کی گواہی اس بات کی متقاضی ہے کہ وہ لوگ ہرحال میں صاحب استقامت رہے ہوں اور انھوں نے ہمیشہ احکام الٰہی کی موافقت کی ہو مخالفت نہ کی ہو، کیونکہ یہ ناممکن ہے کہ وہ لوگ صاحب عدل و استقامت نہ رہیں اور اللہ انھیں خیر امت قرار دے دے۔[3]
[1] الانتصار للصحب والآل ص (359)۔
[2] فتح الباری (11/474، 475)۔
[3] الانتصار للصحب و الآل ص (360)۔
[4] عقیدہ أہل السنۃ فی الصحابۃ الکرام ( 2/799)۔