کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 1108
’’میں حوض پر کھڑا ہوں گا کہ ایک جماعت میرے سامنے آئے گی، اور جب میں انھیں پہچان لوں گا تو ایک شخص (فرشتہ) میرے اور ان کے درمیان سے نکلے گا اور ان سے کہے گا کہ ادھر آؤ، میں کہوں گا کہ کدھر؟ وہ کہے گا واللہ جہنم کی طرف، میں کہوں گا: ان کا کیا قصور ہے؟ وہ کہے گا کہ یہ لوگ آپ کے بعد الٹے پاؤں (دین سے) پھر گئے تھے، پھر ایک اور گروہ میرے سامنے آئے گا اور جب میں انھیں بھی پہچان لوں گا تو ایک شخص (فرشتہ) میرے اور ان کے درمیان میں سے نکلے گا اور ان سے کہے گا کہ ادھر آؤ، میں پوچھوں گا کہ کہاں؟ تو وہ کہے گا: اللہ کی قسم جہنم کی طرف۔ میں کہوں گا کہ ان کا کیا قصور ہے؟ فرشتہ کہے گا: یہ لوگ آپ کے بعد الٹے پاؤں دین سے پھر گئے تھے، میں سمجھتا ہوں کہ ان گروہوں میں سے بہت کم لوگ بچ پائیں گے۔‘‘ آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس پوری حدیث میں صحابہ کا کہیں کوئی ذکر نہیں ہے، بلکہ لوگوں کی ایک جماعت کا ذکر ہے، جسے حوض تک جانے سے روک دیا جائے گا، صرف تھوڑے سے لوگ اس تک پہنچ سکیں گے۔[1] حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ ((فَلَا آرَاہُ یَخْلُصُ مِنْہُمْ اِلَّا مِثْلَ ہُمَلَ النَّعَمِ۔))سے وہ لوگ مراد ہیں جو حوض سے قریب ہوچکے ہوں گے اور قریب ہوگا کہ اس پر پہنچ جائیں تب تک وہ اس سے روک دیے جائیں گے۔ مطلب یہ ہے کہ نہایت تھوڑے لوگوں کی وہاں تک رسائی ہوسکے گی، اس لیے کہ دیگر جانوروں کے مقابلہ اونٹوں میں ’’ہمل‘‘ یعنی بے رسی کے آزاد رہنا بہت ہی کم ہوتا ہے۔[2] اسی سے روافض شیعہ کے استدلال کا بطلان اور ان کی تلبیس کاری کا پردہ چاک ہوجاتا ہے اور ان کی بے ہودہ طعن و تجریح سے صحابہ کرام کی براء ت ظاہر ہوتی ہے۔[3] (1) عدالت صحابہ: علماء کی اصطلاح میں عدالت کی تعریف کا ماحصل یہ کہ عدالت ایک ایسا نفسیاتی ملکہ ہے جو ’’فرد عادل‘‘ کو تقویٰ و مُروت پر ابھارتا ہے اور یہ ملکہ انسان کے اندر اس وقت تک پیدا نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ شرعی احکامات کی پابندی اور منہیات سے دوری اختیار نہ کرے اور تمام خلاف مروت کاموں سے باز نہ آجائے نیز اسے وجود بخشنے کے لیے اسلام، بلوغت، عقل اور فسق و فجور سے دوری شرط ہے۔ پس عدالت کا یہ ملکہ جس طرح اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں بدرجہ اتم موجود تھا کسی میں نہیں رہا، وہ سب کے سب عدول تھے اور صفت عدالت ان کے اندر ثابت تھی۔[4] یعنی وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیث روایت کرنے میں عادل تھے، یعنی اس میں قصداً جھوٹ و انحراف سے قطعی طور سے بچتے رہے۔ علامہ دہلوی فرماتے ہیں کہ ہم نے تمام صحابہ کی سیرت کو گہرائی اور باریک بینی سے ٹٹولا، اور سب کے بارے میں اس نتیجہ پر پہنچے کہ وہ لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنے کو شدید ترین گناہ سمجھتے
[1] صحیح البخاری حدیث نمبر (6585)۔ [2] الإصابۃ فی تمیز الصحابۃ (1/7)۔ [3] صحیح البخاری حدیث نمبر (6584، 6587)۔ [4] صحیح البخاری حدیث نمبر (6587)۔