کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 1107
ہوئے تھے تو یہ لوگ دین اسلام پر تھے، لیکن پھر آپ کی وفات کے بعد مرتد ہوگئے۔ اس لیے آپ سے کہا جائے گا: ((اِنَّکَ لَا تَدْرِیْ مَا اَحْدَثُوْا بَعْدَکَ۔)) تم نہیں جانتے جو انھوں نے تمھارے (وفات پاجانے) کے بعد بدعت ایجاد کی تھی۔ اور بعض روایات میں ہے کہ ((إِنَّکَ لَا عِلْمَ لَکَ بِمَا اَحْدَثُوْا بَعْدَکَ اِنَّہُمُ ارْتَدُّوْا عَلٰی اَدْبَارِہِمُ الْقَہْقَرٰی۔))[1] تمھیں نہیں معلوم کہ انھوں نے تمھارے بعد کیا کیا نئی چیزیں ایجاد کرلی تھیں، یہ لوگ (دین سے) الٹے قدموں واپس لوٹ گئے تھے۔
چنانچہ صاف ظاہر ہے کہ حدیث کا یہ حکم ان لوگوں کے لیے ہے جو وفات نبوی کے بعد مرتد ہوگئے تھے، وہ اصحاب رسول کہ جنھوں نے نبی کی وفا ت کے بعد دین کو اچھی طرح سنبھالا، مرتدین سے جنگ کی اور کفار و مشرکین سے جہاد کیا اور اسی جوش و جذبہ کے ساتھ ممالک کو فتح کرتے چلے گئے، یہاں تک کہ بہت سارے ممالک میں اسلام پھیل گیا، بھلا ان پاکیزہ نفوس کا، اِن خبیث طینت انسانوں سے کیا مقابلہ ہے کہ جو اپنے پیروں کے بل اسلام سے الٹے پھر گئے۔ اہل سنت مسلمانوں کے یہاں یہ مرتدین صحابہ میں سے ہرگز نہیں تھے اور جب مطلقاً صحابہ کا لفظ بولا جائے تو اس اصطلاح میں یہ لوگ شامل نہیں ہوں گے، اس لیے کہ سنی علمائے محققین کے ہاں صحابی کی تعریف یہ ہے: ’’جس نے ایمان کی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی ہو اور اسلام ہی پر اس کی موت ہوئی ہو۔‘‘ [2]
رہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ ((فَلَا آرَاہُ یَخْلُصُ مِنْہُمْ اِلَّا مِثْلَ ہُمَلَ النَّعَمِ۔))[3] یعنی میں سمجھتا ہوں کہ ان گروہوں میں سے بہت کم لوگ بچیں گے اور پھر اس سے چند صحابہ کے علاوہ تمام کی تکفیر پر روافض شیعہ کا استدلال، تو یہ بالکل غلط ہے اور یہ دلیل روافض کے حق میں نہیں بلکہ ان کے خلاف ہے، اس لیے کہ اس میں ’’ہم‘‘ کی ضمیر ان لوگوں کی طرف لوٹ رہی ہے جو حوض سے قریب ہوں گے، وہ وہاں سے روک دیے جائیں گے صرف تھوڑے سے لوگ اس سے بچ سکیں گے، حدیث کا سیاق اسی معنی کو واضح کرتا ہے، حدیث کو ایک بار پھر پڑھیں:
((بَیْنَا أَنَا قَائِمٌ فَإِذَا زُمْرَۃٌ حَتّٰی إِذَا عَرَفْتُہُمْ خَرَجَ رَجُلٌ مِنْ بَیْنِیْ وَ بَیْنَہُمْ فَقَالَ: ہَلُمَّ، قُلْتُ: أَیْنَ؟ قَالَ: إِلَی النَّارِ وَاللّٰہِ ، قُلْتُ: وَ مَا شَأْنُہُمْ؟ قَالَ: إِنَّہُمْ ارْتَدُّوْا بَعْدَکَ عَلٰی أَدْبَارِہِمْ الْقَہْقَرٰی۔ ثُمَّ إِذَا زُمْرَۃٌ حَتّٰی اِذَا عَرَفْتُہُمْ خَرَجَ رَجُلٌ مِنْ بَیْنِیْ وَ بَیْنَہُمْ فَقَالَ: ہَلُمَّ، فَقُلْتُ: إِلٰی اَیْنَ؟ فَقَالَ: إِلَی النَّارِ وَاللّٰہِ، قُلْتُ: مَا شَاْنُہُمْ؟ قَالَ: اِنَّہُمْ ارْتَدُّوْا بَعْدَکَ عَلٰی اَدْبَارِہِمْ الْقَہْقَرٰی، فَلَا اَرٰی یَخْلُصُ مِنْہُمْ اِلَّا ہَمَلَ النَّعَمِ۔))[4]
[1] تاریخ الطبری (3/225) بحوالہ: الانتصار للصحب و الآل ص (356)۔
[2] السنۃ/ عبدااللہ بن أحمد (2/420)۔
[3] شرح السنۃ /بغوی (1/494)۔
[4] صحیح البخاری حدیث نمبر (6582) و صحیح مسلم (2304) ۔