کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 1106
کثرت سے اس قدر مرعوب و خائف تھے کہ جیسے موسم سرما کی بارش والی راتوں میں بکری۔[1] اس کے باوجود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ان مرتدین کے خلاف کمربستہ ہوئے، ان سے زبردست جنگ لڑی، اور برابر مقابلہ کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں مرتدین پر غلبہ عطا فرمایا، پھر ان مرتدین میں سے کچھ اسلام کی طرف لوٹ آئے اور کچھ قتل کردیے گئے، اس طرح صحابہ کرام کے ہاتھوں اسلام کا دبدبہ اور اس کی عظمت و شوکت دوبارہ لوٹ آئی۔ ان صحابہ کرام نے اہل بدعت کے خلاف بھی یہی موقف اختیار کیا اور ان سے نہایت سختی سے نمٹے، یہی وجہ تھی کہ اُن کے دور تک بدعات کو مستحکم ہونے کا موقع نہیں ملا، جب بھی ان کے دورمیں بدعت کی کونپلیں نکلیں انھوں نے ان سے اور ا ن کے موجدین و موسسین سے اپنی براء ت کا اعلان کردیا، چنانچہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے آپ کو قدریہ کے نظریات سے واقف کرایا، تو آپ نے اس کو جواب دیا کہ جب ان لوگوں سے تمھاری ملاقات ہو تواس سے کہہ دو کہ ابن عمر ان سے بری ہے اور وہ ابن عمر سے بری ہیں، آپ نے تین بار یہی بات کہی۔[2] اہل بدعت سے عداوت رکھنے پر صحابہ کرام اور تمام اسلاف امت کا اجماع نقل کرتے ہوئے امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: تمام صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور علمائے سنت کی یہی روش رہی کہ یہ سب کے سب اہل بدعت سے عداوت رکھنے اور ان سے قطع تعلق رکھنے پر متفق رہے۔[3] پس مرتدین اور اہل بدعت کے تئیں صحابہ کرام کے یہ عظیم مواقف ان کی دین پرستی، ایمانی قوت، دین کے لیے قربانی اور وفات نبوی کے بعد دشمنان دین کے خلاف جہاد کی واضح اور عظیم ترین شہادت ہیں، یہ لوگ قربانیاں دیتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ذریعہ سے سنت کو قائم کیا اور بدعت کو اکھاڑ پھینکا، تو یہ ایسے حقائق ہیں جن سے صحابہ پر روافض شیعہ کی تہمت ارتداد واحداث فی الدین اور حوض سے دھتکارا جانے کا فسانہ یکسر باطل ہوجاتا ہے، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ حیات نبوی تک آپ کے ساتھ حسن صحبت اور آپ کی وفات کے بعد آپ کے دین کی حفاظت و بقا کی وجہ سے یہی لوگ حوض کوثر کا جام پینے کے سب سے زیادہ مستحق ہیں اور اسی توجیہ کے بعد اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ((لَیَرُدَّنَّ عَلَیَّ اُنَاسٌ مِنْ اَصْحَابِیْ الْحَوْضَ حَتّٰی اِذَا عَرَفْتُہُمُ اخْتَلَجُوْا دُوْنِیْ)) [4]میں کوئی اشکال نہیں رہ جاتا۔ جس کا مطلب ہے کہ آپ نے فرمایا: میرے کچھ ساتھی حوض پر میرے سامنے لائے جائیں گے اور میں انھیں پہچان بھی لوں گا، لیکن پھر وہ میرے سامنے سے ہٹا دیے جائیں گے۔ پس یہ وہی لوگ ہوں گے جو وفات نبوی کے وقت مسلمان تھے، لیکن آپ کی وفات کے بعد مرتد ہوگئے تھے، جیسا کہ بہت سارے عرب قبائل وفات نبوی کے بعد مرتد ہوگئے تھے ،تو یہ لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے تھے کیونکہ جب آپ فوت
[1] الانتصار للصحب و الآل ص (354)۔ [2] صحیح مسلم / الفضائل و اثبات الحوض (4/17921، 1082)۔ [3] شرح النووی علی مسلم (3/137)۔ [4] التذکرہ فی أحوال الموتی و أمور الآخرۃ (1/348)۔