کتاب: سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 87
راتوں کے بعد غارِ ثور کے پاس صبح سویرے آنے کو کہا۔ عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ بھی آپ لوگوں کے ساتھ ہو لیے، اس طرح یہ چار نفری قافلہ ہجرت پر روانہ ہوا اور وہ راستہ بتانے والا آپ لوگوں کو ساحلی راستہ سے لے کر روانہ ہوا۔[1] جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کے لیے روانہ ہوئے تو علی، ابوبکر اور آل ابوبکر رضی اللہ عنہم کے علاوہ کسی کو اس کی اطلاع نہ تھی اور جب نکلنے کا وقت موعود آیا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر کے پچھلے دروازے سے نکلے[2] تاکہ مکمل رازداری میں اس سفر کا آغاز ہو، کسی کو اطلاع نہ ہونے پائے کیونکہ قریش سے خطرہ تھا کہ وہ آپ کا پیچھا کر کے اس سفر مبارک سے آپ کو روک دیں گے۔[3] اور مکہ سے نکلتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی[4] مکہ کے بازار ’’حزورۃ‘‘ میں کھڑے ہو کر فرمایا: ((واللّٰہ انک لخیر ارض اللّٰہ ، واحب ارض اللّٰہ ، الی اللّٰہ ولو لا انی اخرجت منک ما خرجت۔))[5] ’’اللہ کی قسم! اے مکہ اللہ کی سر زمین میں تو سب سے بہتر اور اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہے۔ اگر مجھے تجھ سے نکالا نہ جاتا تو میں نہ نکلتا۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ چل پڑے۔ مشرکین مکہ نے آپ کا پیچھا کیا اور نقوش قدم کے سہارے جبل ثور تک پہنچ گئے، وہاں پہنچ کر نقوش گڈمڈ ہو گئے، کچھ نہ سمجھ سکے، پہاڑ کے اوپر چڑھے، غار کے پاس سے گذرے، دیکھا غار کے منہ پر مکڑی کا جالا ہے، کہا: اگر اس کے اندر کوئی گیا ہوتا تو مکڑی کا جالا نہ رہتا۔[6] ارشاد ربانی ہے: وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلَّا هُوَ ۚ وَمَا هِيَ (المدثر:۳۱) ’’تیرے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔‘‘ تمام اسباب کو اختیار کرنے کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان اسباب پر بھروسہ کر کے نہیں بیٹھے بلکہ اللہ رب
[1] البخاری: مناقب الانصار، باب ہجرۃ النبی صلي الله عليه وسلم ، رقم: ۳۹۵۔ [2] الہجرۃ فی القرآن الکریم: ۳۳۴۔ [3] خاتم النبیین لابی زہرہ: ۱/۶۵۹، السیرۃ النبویۃ لابن کثیر: ۲/۲۳۴۔ [4] السیرۃ النبویۃ لابن کثیر: ۲/۲۳۰ـ ۲۳۴۔ [5] الترمذی: المناقب، باب فضل مکۃ ۵/۷۲۲۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے۔ دیکھیے: صحیح الترمذی: ۳۲۵، وصحیح ابن ماجہ: ۳۱۰۹۔ [6] مسند احمد: ۱/۳۴۸، لیکن یہ روایت ضعیف ہے، تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، السلسلۃ الضعیفۃ للالبانی: ۳/۳۶۰۔ ۳۶۴ (۱۱۲۹) مترجم۔