کتاب: سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 73
دونوں کے پاس سے گذر ہوا، ان کو ان کی مالکہ آٹا دے کر بھیج رہی تھی اور کہہ رہی تھی تم دونوں کو کبھی آزاد نہ کروں گی۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا: ’’تو اس قسم کو توڑ دے۔‘‘ اس نے کہا: قسم توڑ دوں؟تم نے ان دونوں کو برباد کیا، تم ہی ان دونوں کو آزاد کرو۔ آپ نے کہا: اچھا، کتنے میں دو گی؟ اس نے کہا: اتنے میں۔ آپ نے کہا: میں نے خرید لیا اور آج سے یہ دونوں آزاد ہیں۔ اور ان دونوں سے کہا: اس کا آٹا اس کے حوالے کرو۔ ان دونوں نے کہا: ہم اس سے فارغ ہو کر اس کے حوالے کر دیتی ہیں۔ آپ نے فرمایا: جیسا تم چاہو۔[1] یہ غور کا مقام ہے کہ اسلام نے کس طرح ابوبکر رضی اللہ عنہ اور ان دونوں لونڈیوں کے درمیان مساوات پیدا کی کہ وہ دونوں آپ سے اس طرح مخاطب ہوئیں جیسے ہم مقام لوگ ایک دوسرے کو خطاب کرتے ہیں، یہاں غلام وآقا کا طرز تخاطب نہیں تھا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جاہلیت واسلام میں شرف و منزلت پر قائم رہتے ہوئے بھی اس طرز تخاطب کو قبول کیا، حالانکہ آپ ہی نے ان دونوں کو آزادی دلائی تھی۔ اور کس طرح اسلام نے ان دونوں کو بلند اخلاق سکھائے تھے۔ آزادی اور ظلم سے نجات کے بعد ان کے لیے ممکن تھا کہ اس کا آٹا چھوڑ بھاگتیں، ہوائیں اس کو اڑا لے جاتیں، یا چرند و پرند اس کو کھا لیتے، لیکن سبحان اللہ! انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کیا جب تک کہ اس سے فارغ ہوکر اس کے حوالے نہ کر دیا۔[2] بنو عدی کی شاخ قبیلہ بنو مومل کی ایک لونڈی کے پاس سے ابوبکر رضی اللہ عنہ کا گذر ہوا، جو مسلمان ہو چکی تھی، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے، اس کو اذیت پہنچاتے تاکہ وہ اسلام کو چھوڑ دے، اس کی اس قدر پٹائی کرتے کہ تھک جاتے، جب تھک جاتے تو کہتے: تم کو میں نے تھکنے کی وجہ سے ابھی چھوڑ دیا ہے، وہ جواب دیتی اللہ تمہارے ساتھ ایسا ہی کرے۔ آپ نے اس کو خرید کر آزاد کر دیا۔[3] اس طرح آپ آزادی وحریت کے پیامبر اور غلاموں کو آزاد کرنے والے، باوقار شیخ الاسلام تھے، لوگوں میں آپ سے متعلق یہ بات معروف ومشہور تھی کہ آپ محتاجوں کی مدد کرتے ہیں، صلہ رحمی کرتے ہیں، لوگوں کا بوجھ یعنی قرض وغیرہ اپنے سر لے لیتے ہیں، مہمان نوازی اور ضیافت کرتے ہیں، مصائب میں لوگوں کی مدد اور
[1] السیرۃ النبویۃ لابن ہشام: ۱/۳۹۳۔ [2] السیرۃ النبویۃ لابی شہبۃ : ۱/۳۴۶۔ [3] السیرۃ النبویۃ لابن ہشام: ۱/۳۹۳۔