کتاب: سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 72
رہے گی۔ بلال رضی اللہ عنہ نے پورے صبر واستقامت کے ساتھ جواب دیا: احد، احد۔ امیہ بن خلف ایک مدت تک بلال رضی اللہ عنہ کو اس دردناک طریقے سے سزا دیتا رہا۔[1] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وزیر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اس جگہ پہنچے، امیہ بن خلف سے گفتگو کی اور فرمایا: اس بے چارے کے بارے میں تم اللہ سے ڈرتے نہیں، کب تک تم اس کو اس طرح ستاتے رہو گے؟ اس نے کہا: تم نے ہی تو اس کو برباد کیا ہے، تم ہی اس کو بچاؤ۔ آپ نے کہا: ٹھیک ہے، میرے پاس اس سے قوی وطاقتور ایک کالا غلام ہے اور تمہارے دین پر ہے، میں تمہیں اس کے بدلے دے رہا ہوں۔ اس نے کہا: میں نے قبول کر لیا۔ آپ نے وہ غلام اس کے حوالے کیا اور بلال رضی اللہ عنہ کو لے کر آزاد کر دیا۔[2] ایک روایت کے مطابق آپ نے بلال کو سات یا چالیس اوقیہ سونا کے عوض خرید کر آزاد کر دیا۔[3] بلال رضی اللہ عنہ کا صبر و استقامت قابل داد ہے۔ آپ کا اسلام سچا اور دل پاک تھا، اسی لیے ڈٹے رہے، ہر طرح کے چیلنج کو قبول کیا، سزائیں برداشت کیں لیکن پائے استقامت میں تزلزل نہ آیا، آپ کے صبر و ثبات کو دیکھ کر کفار جل بھن جاتے تھے۔ خاص کر کمزور مسلمانوں میں آپ کی واحد شخصیت تھی جو اسلام پر ڈٹی رہی، آپ نے کفار کی مراد پوری نہ ہونے دی اور کلمہ توحید کے ذریعہ سے ان کو کھلا چیلنج کرتے رہے، اللہ کی راہ میں اپنے نفس کی پرو ا نہ کی۔[4] ہر ابتلاء و آزمائش کے بعد نعمت کا حصول ہوتا ہے، بلال رضی اللہ عنہ کو عذاب اور ذلت ورسوائی سے نجات ملی، غلامی سے آزادی نصیب ہوئی، باقی زندگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں گذاری، شب وروز آپ کے ساتھ رہے اور آپ سے راضی رہ کر وفات پائی۔ ستائے ہوئے مسلمانوں کو آزاد کرانے کی جو سیاست ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جاری رکھی۔ کمزور مسلمانوں کی تعذیب اور ایذا رسانی کے مقابلہ کے لیے اسلامی قیادت نے جو لائحہ عمل اور منصوبہ تیار کیا یہ اس کا ایک بنیادی طریقہ قرار پایا۔ آپ نے اسلامی دعوت کو مال و افراد سے تقویت پہنچائی، اہل ایمان غلام ولونڈی کو خرید کر آزاد کرتے۔ جن لوگوں کو آپ نے غلامی سے نجات دلائی وہ یہ ہیں: عامر بن فہیرہ جو بدر و احد میں شریک رہے اور بئر معونہ کے واقعہ میں شہید ہوئے۔ ام عبیس۔ زنیرہ، جب ان کو آزاد کیا تو ان کی بینائی چلی گئی، کفار کہنے لگے لات وعزیٰ نے اس کی بینائی چھین لی ہے۔ انہوں نے کہا: کفار جھوٹ کہہ رہے ہیں، اللہ کی قسم لات وعزیٰ نفع ونقصان کی طاقت نہیں رکھتے۔ اللہ نے ان کی بینائی لوٹا دی۔[5] نہدیہ اور ان کی بیٹی کو آزاد کیا یہ دونوں ماں بیٹی بنو عبدالدار کی ایک خاتون کی غلامی میں تھیں، آپ کا ان
[1] عتیق العتقاء (ابوبکر الصدیق) محمود البغدادی: ۳۹،۴۰۔ [2] السیرۃ النبویۃ لابن ہشام: ۱/۳۹۴۔ [3] التربیۃ القیادیۃ: ۱/۱۴۰۔ [4] محنۃ المسلمین فی العہد المکی: ۹۲۔ [5] السیرۃ النبویۃ لابن ہشام: ۱؍۳۹۳۔