کتاب: سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 71
بھگاتے اور چیخ کر کہتے: تم برباد ہو جاؤ کیا تم ایسے شخص کو قتل کرنا چاہتے ہو جو کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے؟ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر آپ پر پل پڑتے، آپ کو مارتے، آپ کے بال نوچتے اور اس وقت تک نہ چھوڑتے جب تک کہ آپ کی حالت ابتر نہ ہو جاتی۔[1]
اللہ کی راہ میں ستائے ہوئے لوگوں کی آزادی کے لیے مال خرچ کرنا:
مکہ کے جاہلی معاشرہ میں اسلامی دعوت کی اشاعت کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کو مشرکین کی طرف سے اذیت رسانی میں اضافہ ہوتا گیا اور اذیت رسانی اپنی انتہا کو پہنچ گئی، خاص کر کمزور اور بے یار و مددگار مسلمانوں کے ساتھ۔ ان کو سخت تکلیف پہنچائی جاتی تھی تاکہ یہ لوگ اپنے عقیدہ و اسلام سے باز آجائیں اور دوسروں کے لیے عبرت بن جائیں تاکہ دوسرے لوگ اسلام لانے کی جرأت نہ کر سکیں۔ ان کمزوروں کو اذیت دی جاتی تھی اس سے کفار کے بغض وحسد کا اظہار ہوتا تھا۔
اس سلسلہ میں بلال رضی اللہ عنہ بری طرح ستائے گئے، آپ کی پشت پنا ہی کرنے والا کوئی نہ تھا اور نہ آپ کا خاندان وقبیلہ تھا جو آپ کی حمایت کرتا اور نہ آپ کی طرف سے تلوار اٹھانے والے تھے، جس کے ذریعہ سے آپ کا دفاع ہو سکے۔ اس طرح کے انسان کی مکہ کے جاہلی معاشرہ میں کوئی قدر وقیمت نہ تھی۔ خدمت واطاعت اور مویشیوں کی طرح بیچے اور خریدے جانے کے علاوہ زندگی میں کوئی حیثیت نہ تھی۔ ایسے لوگوں کو کسی رائے وفکر یا کسی دعوت وقضیہ کو لے کر اٹھنے کا کوئی حق نہ تھا، مکہ کے جاہلی معاشرہ میں یہ انتہائی سنگین جرم تھا، اس سے جاہلی معاشرہ کی بنیاد ہل جاتی تھی، یہ اس کو منہدم کرنے کے لیے کسی زلزلہ سے کم نہ تھا۔ لیکن یہ نئی دعوت جس کی طرف نوجوان آگے بڑھے جو اپنے آباء و اجداد اور بڑوں کے رسم ورواج اور اکڑفوں کو چیلنج کر رہے تھے، یہ دعوت اس گئے گذرے حبشی غلام کے دل میں گھر کر گئی اور اس کو زندگی میں نیا انسان بنا کر کھڑا کر دیا۔[2]
اس دین پر ایمان لانے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ایمان والی جماعت کے ساتھ شامل ہونے کے بعد ایمان ان کے دل کی گہرائیوں میں پیوست ہو گیا، اور جوش مارنا شروع کر دیا۔ جب اس کی اطلاع آپ کے مالک امیہ بن خلف کو ہوئی تو وہ کبھی آپ کو ڈراتا دھمکاتا اور کبھی لالچ دلاتا، لیکن جب اس نے دیکھا کہ اس سے بلال کے عزم وحوصلے میں اضافہ ہی ہو رہا ہے اور وہ کسی قیمت پر بھی کفروجاہلیت اور ضلالت وگمراہی کی طرف لوٹنے کے لیے تیار نہیں، تو آپ پر سخت غضبناک ہوا اور آپ کو سخت عذاب میں مبتلا کرنے کا قصد کر لیا، وہ آپ کو چوبیس گھنٹہ بھوکا رکھ کر دوپہر کی چلچلاتی دھوپ میں لے گیا اور جلتی ہوئی ریت پر پیٹھ کے بل لٹا دیا، پھر اپنے غلاموں کو حکم دیا اس پر بھاری پتھر رکھو، انہوں نے آپ کے سینے پر بھاری پتھر رکھ دیا اور آپ کے دونوں ہاتھ جکڑ دیے گئے، پھر امیہ بن خلف نے کہا: تم جب تک محمد کا انکار نہیں کرتے اور لات وعزیٰ کی پوجا نہیں کرتے، تمہیں یہی سزا ملتی
[1] عبقریۃ الصدیق للعقاد: ۱۸۷۔
[2] التربیۃ القیادیۃ: ۱/۱۳۶۔