کتاب: سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 70
ہی تلوار کھینچ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے ہو گئے، جو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھنے کی کوشش کرتا ابوبکر رضی اللہ عنہ اس کے سامنے سینہ سپر رہتے، لہٰذا آپ ہی سب سے بڑے بہادر ٹھہرے۔ ہم نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے قریش پڑ گئے، کوئی آپ پر غصہ اتارتا، کوئی آپ کو تنگ کرتا اور کہتا کہ تم نے تو تمام معبودوں کو چھوڑ کر ایک کو پکڑ لیا ہے۔ اللہ کی قسم جو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آتا ابوبکر رضی اللہ عنہ کسی کو مار کر بھگاتے، کسی کو برا بھلا کہہ کر دور کرتے، فرماتے: تم برباد ہو، تم ایسے شخص کو قتل کرتے ہو جو کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے۔ پھر علی رضی اللہ عنہ نے اپنی چادر ہٹائی اور اس قدر روئے کہ آپ کی داڑھی تر ہو گئی، پھر فرمایا: لوگو میں تمہیں قسم دلاتا ہوں، بھلا بتاؤ آل فرعون کا مومن (جس نے موسیٰ علیہ السلام سے تعاون کیا تھا) افضل ہے یا ابوبکر رضی اللہ عنہ ؟ یہ سن کر لوگ رو پڑے۔ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کی قسم ابوبکر رضی اللہ عنہ کی ایک ساعت مومن آل فرعون کی زمین بھر نیکیوں سے بہتر ہے کیونکہ مومن آل فرعون اپنے ایمان کو چھپائے پھرتا تھا اور یہ اپنے ایمان کا اعلان کرتے پھرتے تھے۔[1]
علی رضی اللہ عنہ کا یہ بیان حق وباطل، ہدایت وضلالت اور ایمان وکفر کے مابین جاری جنگ کی نوعیت کی عکاسی کرتا ہے اور اللہ کی راہ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جو مصائب وآلام برداشت کیے ہیں ان سے اس کی وضاحت ہوتی ہے اور ہمارے سامنے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی منفرد شخصیت اور آپ کی نادر الوجود شجاعت نکھر کر سامنے آجاتی ہے، جس کی شہادت ایک مدت کے بعد علی رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت میں دی اور اس قدر متاثر ہوئے کہ خود رو پڑے اور دوسروں کو رونے پر مجبور کر دیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پہلے شخص ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں جنہیں اللہ کی راہ میں ستایا گیا، اور آپ پہلے شخص ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دفاع کیا اور آپ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اللہ کی طرف دعوت دی۔[2] آپ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دایاں بازو تھے۔ آپ نے دعوت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دائمی صحبت اور اسلام میں داخل ہونے والوں کی تعلیم و تربیت اور ان کی تکریم کے سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معاونت کے لیے اپنے آپ کو وقف کر رکھا تھا۔ ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ اپنے قبول اسلام کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پیشکش کی: یا رسول اللہ! انہیں کھانا کھلانے کا موقع آج رات مجھے دیجیے؟ اور پھر ان کے کھانے میں طائف کا منقا پیش کیا۔[3] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معاونت کی یہی کیفیت آپ کی رہی، آپ اپنے متعلق خطرات کو اہمیت نہیں دیتے تھے بلکہ آپ کی اصل فکر یہ ہوتی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی تکلیف لاحق نہ ہونے پائے، چاہے وہ تھوڑی ہو یا زیادہ، جہاں بھی ایسی کوئی بات دیکھتے آپ کی طرف سے دفاع کرتے، جب دیکھتے کہ لوگ آپ کو گھیرے میں لیے ہوئے ہیں اور آپ کو پکڑے ہوئے ہیں ان کے درمیان گھس جاتے، ان کو آپ سے دور
[1] البدایۃ والنہایۃ : ۳؍۲۷۱، ۲۷۲۔
[2] ابوبکر الصدیق: محمد عبدالرحمن قاسم، ۲۹،۳۰۔۳۲۔
[3] فتح الباری: ۷/ ۲۱۳، الخلافۃ الراشدۃ: یحیی الیحي، ۱۵۶۔