کتاب: سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 68
نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں دریافت کیا تو فوراً جواب دیا کہ نہ میں ابوبکر کو جانتی ہوں اور نہ محمد بن عبداللہ کو جانتی ہوں۔ کامل احتیاط کا تقاضا یہی تھا کیونکہ اس وقت ام الخیر مسلمان نہ تھیں اور ام جمیل اپنے اسلام کو چھپا رہی تھیں، یہ نہیں چاہتی تھیں کہ ام الخیر کو اس کی خبر ہو۔ اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کی خبر دی، کیونکہ خوف تھا کہ کہیں قریش کی جاسوس نہ ہوں۔[1] ساتھ ہی ساتھ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی کیفیت معلوم کرنے اور آپ کی صحت کے سلسلہ میں اطمینان حاصل کرنے کی بھی فکر دامن گیر تھی، اسی لیے ام الخیر سے ان کے بیٹے کے پاس ان کے ساتھ جانے کی پیشکش کی۔ اور جب ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچیں تو اس سلسلہ میں کامل احتیاط ملحوظ رکھی کہ کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام وجگہ کی خبر کسی کو ملنے نہ پائے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق اطمینان دلایا۔[2] اور پھر تینوں کا ایسے وقت میں گھر سے نکلنا جب لوگوں کا چلنا پھرنا بند ہو جائے اور فضا پر سکون ہو جائے، کامل احتیاط کو ظاہر کرتا ہے، جبکہ لوگوں کے دین سے کھیلا جا رہا تھا اور لوگ آزمائشوں سے دوچار ہو رہے تھے۔[3] ٭ اس واقعہ سے والدہ کے ساتھ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے نیکی واحسان کا پتہ چلتا ہے۔ آپ اپنی والدہ کی ہدایت کے لیے انتہائی حریص تھے۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یہ میری والدہ اپنے بیٹے کو بہت چاہتی ہیں، آپ کی ذات بابرکت ہے، آپ ان کو اللہ کی طرف دعوت دیں اور ان کے حق میں اللہ سے دعا کریں امید ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے ذریعہ سے ان کو جہنم سے بچا لے۔ اس جملے سے عذاب الٰہی کا خوف اور اس کی رضا جوئی وجنت کی رغبت عیاں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی والدہ کے لیے ہدایت کی دعا کی اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی، آپ کی والدہ مشرف بہ اسلام ہوئیں اور مومنوں کی اس بابرکت جماعت میں شامل ہو گئیں، جو اللہ کے دین کی نشرواشاعت کے لیے کوشاں تھی۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ساتھ کس قدر رحم فرمانے والا ہے اور اس واقعہ سے ’’احسان پر احسان‘‘ کا قانون ہمارے سامنے نمایاں نظر آتا ہے۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ میں سب سے زیادہ ابتلاء وآزمائش سے دوچار ہونے والے ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے، کیونکہ آپ ہمہ وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہتے اور ان مقامات پر آپ کے ساتھ ہوتے، جہاں لوگ آپ کو اذیت پہنچاتے اور آپ کی شان میں گستاخیاں کرتے۔ اس وقت ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کی طرف سے دفاع کرتے اور فدائیت کا ثبوت دیتے، اس طرح وہ قوم کی اذیت اور ان کی حماقتوں سے دوچارہوتے،
[1] السیرۃ النبویۃ قراء ۃ لحمایۃ الحذر والحمایۃ: ۵۰۔ [2] السیرۃ النبویۃ قراء ۃ لحمایۃ الحذر والحمایۃ: ۵۱۔ [3] استخلاف الصدیق: د۔ جمال عبدالہادی، ۱۳۲۔