کتاب: سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 67
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے اللہ سے دعا کی اور ان کو اسلام کی دعوت دی، وہ فوراً مسلمان ہو گئیں۔[1] یہ عظیم واقعہ ان حضرات کے لیے اپنے اندر بہت سے دروس وعبر رکھتا ہے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اقتدا کرنا چاہتے ہیں۔ ہم یہاں ان دروس وعبر کو بیان کر رہے ہیں: ٭ ابوبکر رضی اللہ عنہ اسلام کے اعلان اور کفار کے سامنے اس کے اظہار کے بڑے شوقین تھے۔ اس سے آپ کی ایمانی قوت اور شجاعت کا پتہ چلتا ہے۔ اس کی خاطر انہوں نے بڑی تکلیف اٹھائی، یہاں تک کہ قوم کے لوگوں کو آپ کی موت میں شک نہ رہا، آپ کے دل میں اللہ و رسول کی محبت اپنے نفس سے کہیں زیادہ پیوست تھی۔ اسلام کے بعد آپ کے پیش نظر صرف توحید کا پرچم بلند کرنا اور مکہ کے اندر لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی صدا کو عام کرنا تھا اگرچہ اپنی جان دینی پڑے۔ اور عملاً ایسا ہوا بھی کہ اسلام وعقیدۂ توحید کی خاطر قریب تھا کہ اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے۔ ٭ لوگوں تک اسلامی دعوت کو پہچانے کے لیے… جس سے دلوں کو خوشی وسکون ملتا ہے… جاہلی طوفان کے درمیان اسلام کے اظہار و اعلان پر ابوبکر رضی اللہ عنہ کا اصرار، باوجودیکہ آپ کو یہ پتہ تھا کہ اس راستہ میں کس قدر مصائب وآلام ان کو اور ان کے ساتھیوں کو اٹھانے پڑیں گے، اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ آپ ذاتی منفعت کی فکر کے دائرہ سے نکل چکے تھے۔ ٭ اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دل میں اس طرح پیوست ہو گئی تھی کہ اپنے نفس کی محبت پر غالب تھی، اس کی واضح دلیل یہ ہے کہ باوجودیکہ لوگ آپ کی زندگی سے نا امید ہو چکے تھے، پھر بھی آپ کا پہلا سوال تھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس حال میں ہیں؟ اور آپ نے قسم کھا لی کہ اس وقت تک کچھ کھاؤں پیوں گا نہیں، جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات نہیں کر لیتا۔ اسی طرح ہر مسلمان کے اندر اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت تمام محبتوں پر غالب ہونی چاہیے، خواہ اس کی خاطر جان ومال قربان کرنا پڑے۔[2] ٭ افراد کے ساتھ تعامل اور واقعات وحادثات کے سلسلہ میں قبائلی عصبیت کا اہم کردار تھا۔ اگرچہ عقیدہ میں اختلاف کیوں نہ ہو، یہاں ہم نے دیکھا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے قبیلہ نے عقیدہ میں اختلاف کے باوجود عتبہ کو دھمکی دی کہ اگر ابوبکر کی موت ہو گئی تو ہم تم کو قتل کیے بغیر نہیں رہیں گے۔[3] ٭ اس واقعہ سے ام جمیل رضی اللہ عنہا کا بہترین مؤقف نکھر کر سامنے آتا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ دعوت دین کے شوق ومحبت اور اس کے لیے جدوجہد پر کس طرح ان کی تربیت ہوئی تھی۔ جب ابوبکر رضی اللہ عنہ کی والدہ
[1] السیرۃ النبویۃ لابن کثیر: ۱/۴۳۹۔ ۴۴۱، البدایۃ والنہایۃ: ۳/۳۰۔ [2] استخلاف ابی بکر الصدیق: د۔ جمال عبدالہادی، ۱۳۱۔۱۳۲۔ [3] محنۃ المسلمین فی العہد المکی: د۔ سلیمان السُّویکت، ۷۹۔