کتاب: سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 66
جب والدہ آپ کے ساتھ تنہائی میں ہوئیں تو کچھ کھانے پینے پر اصرار کیا لیکن آپ یہی کہتے رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟ والدہ نے کہا: اللہ کی قسم تمہارے ساتھی کی مجھے کوئی خبر نہیں ہے۔ آپ نے کہا: ام جمیل بنت خطاب کے پاس جاؤ اور ان سے آپ کے بارے میں پوچھو۔ آپ کی والدہ ام جمیل کے پاس پہنچیں اور ان سے کہا کہ ابوبکر، محمد بن عبداللہ کے متعلق دریافت کر رہا ہے کہ ان کا کیا حال ہے؟ ام جمیل نے کہا: میں نہ ابوبکر کو جانتی ہوں اور نہ محمد بن عبداللہ کو، لیکن اگر آپ پسند کریں تو میں آپ کے ساتھ آپ کے بیٹے کے پاس چلتی ہوں؟ والدہ نے کہا: ہاں چلیے! وہ ان کے ساتھ گئیں، آپ کے پاس پہنچ کر جب آپ کی ناگفتہ بہ حالت دیکھی تو پریشان ہو گئیں اور چیخ پڑیں اور کہا کہ جن لوگوں نے آپ کے ساتھ یہ برتاؤ کیا ہے وہ انتہائی برے لوگ اور کافر ہیں۔ مجھے اللہ سے امید ہے کہ وہ آپ کا انتقام ان سے ضرور لے گا۔ آپ نے ان سے دریافت کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟ ام جمیل نے کہا: یہ آپ کی والدہ سن رہی ہیں۔ کہا: کوئی پرو ا نہیں۔ بتلایا: آپ صحیح سالم ہیں۔ پوچھا: کہاں ہیں؟ ام جمیل نے کہا: دار ارقم میں۔ آپ نے کہا: میں اللہ کی قسم اس وقت تک نہ کھاؤں گا اور نہ پیوں گا جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری نہ دے دوں۔ جب لوگوں کا چلنا پھرنا کم ہوا، ماحول پر سکون ہوا تو ام جمیل اور آپ کی والدہ آپ کو سہارا دے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے گئیں، آپ کو دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ سے چمٹ گئے اور آپ کو بوسہ دیا اور دیگر مسلمان بھی آپ سے چمٹ گئے۔ آپ کی کیفیت دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بڑی رقت طاری ہوئی۔ آپ نے کہا: کوئی پریشانی نہیں، صرف اس فاسق نے میرے چہرہ کی جو حالت بنائی ہے وہی قابل افسوس ہے۔ یہ میری والدہ ہیں، اپنے بیٹے کو بہت چاہتی ہیں۔ آپ کی ذات با برکت ہے، آپ ان کو اللہ کی طرف دعوت دیجیے اور اللہ سے دعا کیجیے، امید ہے اللہ انہیں آپ کے ذریعہ سے جہنم سے بچا لے۔