کتاب: سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 65
بات کی آئینہ دار ہے کہ انہوں نے اسلام کو اپنی زندگی میں کس طرح نافذ کیا تھا؟ آپ کی سیرت اس قابل ہے کہ ہمارے علماء ومبلغین لوگوں کی دعوت و تربیت میں اس کو اسوہ بنائیں۔
ابتلاء وآزمائش:
افراداور جماعتیں، اقوام و ملل اور ممالک کی تاریخ میں ابتلاء و آزمائش کی سنت جاری رہی ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے اندر بھی یہ سنت الٰہی قائم رہی اور اس قدر ابتلاء و محن سے دوچار ہوئے کہ دیو ہیکل پہاڑ بھی جواب دے جائیں لیکن ان نفوس قدسیہ نے اپنی جان ومال اللہ کی راہ میں قربان کر دیے۔ جہد ومشقت انتہاء کو پہنچ گئی، اس ابتلاء و محن سے اونچے گھرانے کے مسلمان بھی نہ بچ سکے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ جیسی عظیم شخصیت کو بھی اذیت پہنچائی گئی۔ آپ کے سرمبارک پر مٹی ڈالی گئی، مسجد حرام میں جوتوں سے پٹائی کی گئی، یہاں تک کہ آپ کا چہرہ اس قدر زخمی ہوا کہ ناک وچہرہ میں تمیز کرنا مشکل ہو گیا اور موت وحیات کے عالم میں کپڑے میں لپیٹ کر آپ کے گھر لایا گیا۔[1]
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں: جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کچھ صحابہ اکٹھے ہو گئے جن کی تعداد ۳۸ ہو گئی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اصرار کیا کہ اب دعوت کو ظاہر کیا جائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابھی ہم تھوڑے ہیں، لیکن ابوبکر رضی اللہ عنہ برابر اصرار کرتے رہے، آپ کے اصرار پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک روز صحابہ کے ساتھ مسجد حرام میں تشریف لائے، صحابہ مسجد کے گوشوں میں اپنے اپنے قبیلے کے ساتھ جا بیٹھے، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر خطاب کرنا شروع کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے۔ آپ پہلے خطیب تھے جنہوں نے اللہ و رسول کی طرف دعوت دی۔ یہ خطاب سن کر مشرکین آپ پر اور آپ کے دیگر مسلمان ساتھیوں پر بپھر پڑے، مسلمانوں کی سخت پٹائی کی، ابوبکر کو روند ڈالا، سخت مارا پیٹا، ملعون عتبہ بن ربیعہ آپ سے قریب ہوا، آپ کو پیوند لگے جوتوں سے مارنے لگا، آپ کے چہرہ کو نشانہ بنایا اور آپ کے پیٹ پر چڑھ گیا، کیفیت یہ ہو گئی تھی کہ چہرہ اور ناک کا پتہ نہیں چل رہا تھا۔ بنوتیم کے لوگ دوڑے ہوئے آئے ان کو دیکھ کر مشرکین آپ کو چھوڑ بھاگے۔ بنو تیم آپ کو کپڑے میں لپیٹ کر آپ کے گھر لے گئے، آپ کی موت میں کسی کو شک نہ رہا، پھر بنو تیم کے لوگ مسجد حرام میں واپس آئے اور قسم کھا کر کہا: اللہ کی قسم اگر ابوبکر کی وفات ہو گئی تو ہم عتبہ بن ربیعہ کو ضرور قتل کر دیں گے۔ اس کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس واپس پہنچے، آپ کے والد ابو قحافہ اور بنو تیم کے لوگوں نے آپ سے بات کرنے کی کوشش کی، آپ نے دن کے آخری پہر بات چیت شروع کی تو آپ کا پہلا سوال یہ تھا:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟‘‘
اس پر انہوں نے آپ کو ملامت کی اور آپ کی والدہ سے کہا: ان کو کچھ کھلاؤ پلاؤ۔
[1] التمکین للامۃ الاسلامیۃ: ۲۴۳۔