کتاب: سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 64
لوگوں سے بھی پورا واقف ہے۔‘‘ دعوت الی اللہ کے سلسلہ میں آپ کی نقل وحرکت اس دین پر ایمان اور اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے سلسلہ میں ایسے مومن کی واضح تصویر پیش کرتی تھی جس کو اس وقت تک چین وسکون نہیں آتا جب تک لوگوں کے اندر اپنے ایمان وعقیدہ کو راسخ نہ کر دے۔ یہ کوئی وقتی تحریک وجذبہ نہ تھا جو جلد ہی مضمحل ہو جاتا، بلکہ اسلام کے لیے آپ کی جدوجہد اور نقل وحرکت تا دم وفات باقی رہی، کبھی نہ تھکے نہ کمزور پڑے، نہ اکتاہٹ محسوس کی اور نہ عاجز آکر بیٹھے۔[1] ابوبکر رضی اللہ عنہ کی دعوت کا پہلا ثمرہ مقدس ترین ہستیوں کا مشرف بہ اسلام ہونا تھا، وہ ہستیاں یہ تھیں: زبیر بن العوام، عثمان بن عفان، طلحہ بن عبیداللہ، سعد بن ابی وقاص، عثمان بن مظعون، ابوعبیدہ بن الجراح، عبدالرحمن بن عوف، ابو سلمہ بن عبدالاسد، ارقم بن ابی ارقم رضی اللہ عنہم ۔ آپ ان صحابہ کرام کو الگ الگ لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر اسلام قبول کیا، یہ لوگ پہلے ستون تھے جن پر اسلامی دعوت کی عمارت قائم ہوئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقویت کا پہلا سبب تھے، ان نفوس قدسیہ کے ذریعہ سے اللہ نے آپ کی نصرت وتائید فرمائی۔ مرد وخواتین اسلام میں داخل ہونا شروع ہو گئے۔ یہ تمام کے تمام اسلام کے داعی ومبلغ تھے۔ ان کے ساتھ السابقون الاوّلون کی جماعت آگے بڑھی، ایک ایک، دو دو، مختصر جماعت، یہ اپنی قلت تعداد کے باوجود دعوت اسلامی کا لشکر تھے، اسلامی رسالت کا قلعہ تھے، اسلامی تاریخ میں ان کے مقام کو کوئی نہ پہنچ سکا۔[2] اسلامی دعوت کے سلسلہ میں صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے خاندان پر توجہ دی تو اسماء، عائشہ، عبداللہ، آپ کی بیوی ام رومان، آپ کے خادم عامر بن فہیرہ مشرف بہ اسلام ہو گئے۔ صفات حمیدہ اور اخلاق کریمہ کا… جو آپ کی شخصیت کا جز لاینفک ہو چکے تھے… لوگوں کو اسلام کی طرف کھینچنے میں اہم رول رہا۔ قوم قبیلہ میں آپ کے پاس اخلاق کا عظیم سرمایہ تھا، قوم کے سبھی لوگ آپ کے گرویدہ تھے، آپ سے ان کو محبت تھی، آپ انتہائی نرم خو تھے۔ قریش کے نسب کا سب سے زیادہ علم رکھنے والے اور اس فن میں یکتا تھے۔ قابل احترام رئیس اور جودوسخا کے مالک تھے، مکہ میں ضیافت کا جو اہتمام آپ کرتے تھے اس میں آپ کا کوئی ثانی نہ تھا۔ آپ انتہائی فصاحت وبلاغت کے مالک تھے۔[3] یہ اخلاق عالیہ اور صفات حمیدہ دعاۃ ومبلغین اسلام کے لیے انتہائی ضروری ہیں ورنہ ان کی دعوت صدا بہ صحرا ہو گی اور راکھ میں پھونک مارنے کے مترادف ہو گی۔ صدیق کی سیرت طیبہ آپ کے فہم اسلام کی تفسیر ہے اور اس
[1] الوحی وتبلیغ الرسالۃ، د۔ یحیی الیحیی: ۶۲۔ [2] محمد رسول اللہ: عرجون، ۱/۵۳۳۔ [3] السیرۃ الحلبیۃ: ۱/۴۴۲۔