کتاب: سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 63
میں شرکت کا اہتمام کرتے، کیونکہ آپ مکہ کے مشہور ترین تاجر تھے اگرچہ پہلے نمبر کے نہ سہی۔ دیگر لوگ بھی اپنی ضروریات اور مصالح کے پیش نظر آپ کے پاس حاضری دیتے تھے۔ آپ کے بلند اور پاکیزہ اخلاق کے پیش نظر عام لوگ بھی آپ کی خدمت میں حاضری دیتے۔ آپ بڑے مہمان نواز تھے۔ مہمان کی آمد پر بے حد خوش ہوتے، ان کی تکریم کرتے، چنانچہ ہر طبقے کے لوگ آپ کی جامع شخصیت سے اپنا مقصود پاتے تھے، کوئی محروم نہ رہتا تھا۔[1]
آپ کے پاس معاشرہ میں علمی، ادبی اور معاشرتی سرمایہ بھرپور مقدار میں تھا، اس لیے جب آپ اسلام کی دعوت کے لیے اٹھے تو آپ کی دعوت پر لبیک کہنے والے افضل ترین اور چنندہ لوگ تھے۔[2]
دعوت:
صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا اور اسلام کی دعوت کا پرچم لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے، آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سیکھا تھا کہ اسلام عمل، دعوت اور جہاد کا دین ہے، جب تک انسان اپنی جان ، مال اور سب کچھ اللہ کے حوالے نہیں کر دیتا اس کا ایمان مکمل نہیں ہوتا۔[3]
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿١٦٢﴾ لَا شَرِيكَ لَهُ ۖ وَبِذَٰلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ (الانعام: ۱۶۲۔ ۱۶۳)
’’آپ فرما دیجیے کہ بالیقین میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور مرنا یہ سب خالص اللہ ہی کا ہے، جو سارے جہان کا مالک ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھ کو اسی کا حکم ہوا ہے اور میں سب ماننے والوں میں سے پہلا ہوں۔‘‘
اسلامی دعوت کے لیے آپ بڑے متحرک تھے۔ آپ کی دعوت میں بڑی برکت تھی، جہاں جاتے اثر انداز ہوتے اور اسلام کا عظیم فائدہ ہوتا۔ آپ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کا زندہ عملی نمونہ تھے:
ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ۖ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ۚ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ ۖ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ(النحل:۱۲۵)
’’اپنے رب کی راہ کی طرف لوگوں کو حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلایئے اور ان سے بہترین طریقے سے گفتگو کیجیے، یقینا آپ کا رب اپنی راہ سے بہکنے والوں کو بھی بخوبی جانتا ہے اور راہ یافتہ
[1] التربیۃ القیادیّۃ للغضبان: ۱/۱۱۵۔
[2] التربیۃ القیادیۃ للغضبان : ۱؍۱۱۶۔
[3] تاریخ الدعوۃ فی عہد الخلفاء الراشدین: ۸۷۔