کتاب: سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 62
ہے کہ خواتین میں سب سے پہلے اسلام لانے والی ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا ہیں۔ بعض لوگوں نے کہا مردوں سے بھی پہلے۔ غلاموں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ مشہور قول کے مطابق اس وقت وہ چھوٹے تھے، بلوغت کی عمر کو نہیں پہنچے تھے اور آزاد مردوں میں سب سے پہلے اسلام سے مشرف ہونے والے ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں۔ مذکورہ بالا لوگوں میں سب سے زیادہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کا اسلام لانا نفع بخش رہا، کیونکہ آپ کو قیادی حیثیت حاصل تھی، قریش کے قابل احترام رئیس تھے، مالی پوزیشن بھی آپ کی اچھی تھی، اوّل دن سے اسلام کے داعی تھے، آپ سے سب ہی محبت کرتے اور آپ کو چاہتے تھے، اللہ ورسول کی اطاعت میں بے دریغ مال خرچ کرتے تھے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے ان اقوال میں جمع و تطبیق پیدا کرتے ہوئے فرمایا: آزاد مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں اور خواتین میں اس شرف کو پانے والی خدیجہ رضی اللہ عنہا ہیں اور غلاموں میں زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور بچوں میں علی رضی اللہ عنہ ہیں۔[1] ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو انتہائی خوشی ہوئی۔ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی گفتگو سے فارغ ہوئے تو فوراً ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کر لیا۔ جب ان کے پاس سے چلے تو مکہ کی دونوں پہاڑیوں کے درمیان ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے سے آپؐ سے زیادہ کسی کو خوشی نہ تھی۔[2] ابوبکر رضی اللہ عنہ ایک گراں مایہ خزانہ تھے، جسے اللہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے محفوظ کر رکھا تھا۔ قریشیوں میں آپ سب سے زیادہ محبوب تھے۔ وہ پاکیزہ بلند اخلاق جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کیے تھے اس کی وجہ سے لوگ آپ کی طرف کھنچے چلے آتے تھے اور آپ کے گرویدہ ہو رہے تھے۔ بلند کردار اور اچھا اخلاق وہ عنصر ہے جو لوگوں کو اپنا گرویدہ بنانے کے لیے کافی ہے۔ آپ کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ((ارحم امتی بامتی ابوبکر)) [3] ’’میری امت میں، میری امت پر سب سے زیادہ رحم کرنے والے ابوبکر ہیں۔‘‘ عربوں کے یہاں علم انساب وعلم تاریخ اہم ترین علوم سمجھے جاتے ہیں اور ابوبکر رضی اللہ عنہ ان دونوں علوم کے ماہر تھے اور قریش کو اس کا اعتراف تھا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ ان میں علم انساب اور علم تاریخ کے سب سے بڑے عالم ہیں، اس لیے قوم کا مہذب اور بصیرت مند آپ کی محفلوں میں شرکت کا اہتمام کرتا تھا کہ آپ کے وسیع علم سے مستفید ہو جو دوسروں کے پاس نہیں مل سکتا تھا۔ سمجھدار اور ذہین نوجوان ہمیشہ آپ کی محفلوں میں شریک ہوتے اور آپ کی فکر وثقافت سے مستفید ہوتے۔ یہ بھی آپ کی عظمت کا ایک پہلو ہے، اسی طرح تاجر اور مالدار لوگ بھی آپ کی محفل
[1] البدایۃ والنہایۃ: ۳/ ۲۶، ۲۸۔ [2] البدایۃ والنہایۃ: ۳/ ۲۶، ۲۸۔ [3] صحیح الجامع الصغیر للالبانی رحمہ اللہ ۲/۸۔