کتاب: سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 60
اخلاق کریمانہ اور عادات طیبہ سے بخوبی واقف تھے، اسی طرح ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کی صداقت اور امانت داری اور ایسے اخلاق سے واقف تھے، جو لوگوں کے ساتھ جھوٹ سے مانع تھے، پھر بھلا اللہ رب العالمین پر کیسے جھوٹ بول سکتے تھے۔[1] چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی طرف دعوت کا آغاز کرتے ہوئے ان سے کہا: میں اللہ کا رسول و نبی ہوں، مجھے اللہ نے یہ دعوت دے کر بھیجا ہے کہ صرف اللہ کی عبادت کرو، اس کا کوئی شریک نہیں، اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرو، اس کی اطاعت پر دوستی کرو۔[2] یہ بات سن کر ابوبکر رضی اللہ عنہ بغیر کسی لیت ولعل اور بلا کسی تاخیر کے فوراً مشرف بہ اسلام ہو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کی تائید ونصرت کا معاہدہ کیا اور اپنے اس عہد کو کماحقہ ادا کیا، اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے سلسلہ میں فرمایا: ((ان اللّٰہ بعثنی الیکم فقلتم کذبت وقال ابوبکر: صدق و واسانی بنفسہ ومالہ ، فہل انتم تارکون لی صاحبی؟ مرتین۔)) [3] ’’اللہ نے مجھے تمہاری طرف مبعوث کیا تو تم لوگوں نے اوّلاً مجھے جھٹلایا اور ابوبکر نے تصدیق کی اور اپنی جان ومال کے ساتھ میرا ساتھ دیا، تم میری خاطر میرے ساتھی کو چھوڑے رکھو، تم میری خاطر میرے ساتھی کو چھوڑے رکھو۔‘‘ اس طرح ابوبکر رضی اللہ عنہ آزاد مردوں میں سب سے پہلے مشرف بہ اسلام ہوئے۔ امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ ، حسان بن ثابت، عبداللہ بن عباس، اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہم نے کہا: سب سے پہلے اسلام لانے والے ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں۔ یوسف بن یعقوب الماجشون کا کہنا ہے کہ میرے والد اور میرے اساتذہ، محمد بن منکدر، ربیعہ بن عبدالرحمن، صالح بن کیسان، سعد بن ابراہیم، عثمان بن محمد الاخنس کو اس بات میں ادنیٰ شک بھی نہیں تھا کہ سب سے پہلے اسلام لانے والے ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں۔[4] عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے اسلام لانے والے ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں، پھر انہوں نے حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے اشعار سے استدلال کیا: اذا تذکَّرتَ شجوًا من اخی ثقۃٍ فاذکر اخاک ابابکر بما فعلا
[1] تاریخ الدعوۃ فی عہد الخلفاء الراشدین: ۴۴۔ [2] السیرۃ النبویۃ لابن ہشام: ۱/ ۲۸۶، السیرۃ الحلبیۃ: ۱/۴۴۰۔ البدایۃ والنہایۃ ۳؍۳۱ ، ط دار المعرفۃ بیروت۔ [3] البخاری: فضائل اصحاب النبی صلي الله عليه وسلم ، ۳۶۶۱۔ [4] صفۃ الصّفوۃ: ۱/ ۲۳۷ ، فضائل الصحابۃ للامام احمد : ۳/ ۲۰۶۔