کتاب: سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 58
تصدیق کی۔[1] آپ امیہ بن ابی الصلت کے کلام کو شوق سے سنتے تھے، جیسے اس کا یہ قول: ألا نبی لنا منا فیخبرنا ما بعد غایتنا من راس مجرانا ’’خبردار ہو جاؤ ہم میں سے ہمارے لیے ایک نبی مبعوث ہونے والے ہیں جو ہماری زندگی کے مقصد کی ہمیں خبر دیں گے۔‘‘ انی اعوذ بمن حج الحجیجُ لہ والرافعون لدین اللہ ارکانا ’’یقینا اس ذات کی پناہ چاہتا ہوں جس کے لیے حجاج حج کرتے ہیں، اور اللہ کے دین کے ارکان کو بلند کرتے ہیں۔‘‘ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اثر انگیز بصیرت، عقل تاباں، فکر مؤثر، ذہن نیر، تیز ذکاوت اور سنجیدہ و باوقار غور وفکر کے ساتھ اس دور میں زندگی گذاری جس کی وجہ سے انہوں نے بہت سے اشعار و واقعات کو محفوظ کر لیا، چنانچہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے سوال کیا ان میں ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے: تم میں سے کون قس بن ساعدہ کا وہ کلام یاد رکھتا ہے جو اس نے عکاظ کے بازار میں کہا تھا؟ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ہاں، یارسول اللہ! مجھے یاد ہے، میں اس دن عکاظ میں موجود تھا، قس اپنے خاکستری اونٹ پر سوار کہہ رہا تھا، لوگو سنو اور یاد کر لو اور جب یاد کر لو تو اس سے استفادہ کرو، یقینا جو دنیا میں زندہ رہا اس کو موت آئی ہے اور جو مر گیا وہ فوت ہو گیا، ہر آنے والی چیز آ کر رہے گی، یقینا آسمان میں خبریں ہیں اور زمین میں دروس و عبر ہیں، زمین کا بچھونا بچھا ہوا ہے، آسمان کی چھت بلند ہے، ستارے چکر لگا رہے ہیں، سمندر اترنے والے نہیں، رات تاریک ہے، آسمان برجوں والا ہے۔ قس قسم کھاتا ہے: یقینا اللہ کا ایک دین ہے جو تمہارے اس دین سے جس پر تم ہو اللہ کو زیادہ محبوب ہے۔ مجھے کیا ہو گیا کہ دیکھتا ہوں لوگ چلے جا رہے ہیں، کوئی لوٹ کر آتا نہیں، کیا نیا مقام ان کو پسند آگیا ہے کہ اقامت پذیر ہو گئے یا انہیں چھوڑ دیا گیا ہے، پس سو گئے ہیں۔ پھر اس نے یہ شعر پڑھا: فی الذاہبین الاوّلی القرون لنا بصائر ’’گذشتہ زمانے میں گذرے ہوئے لوگوں میں ہمارے لیے درس اور عبرتیں ہیں۔‘‘
[1] تاریخ الخلفاء للسیوطی: ۵۲۔