کتاب: سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 57
(۲) اسلام، دعوت، ابتلاء وآزمائش، پہلی ہجرت اسلام: ابوبکر رضی اللہ عنہ کا اسلام تلاش حق کے طویل ایمانی سفر کا نتیجہ تھا۔ آپ کو شروع سے دین حق کی تلاش تھی، جو آپ کی فطرت سلیمہ، دور رس بصیرت اور عقل راجح سے بالکل موافقت رکھتا ہو۔ آپ تجارتی مشغلہ کی وجہ سے زیادہ سفر کرتے تھے، جزیرۃ العرب کے اکثر شہروں، بستیوں اور صحراؤں سے آپ کا گذر ہوتا تھا، شمال سے جنوب اور مشرق سے مغرب تک کا چکر لگاتے تھے۔ مختلف ادیان کے ماننے والوں، خاص کر نصاریٰ سے گہرا تعلق تھا اور ان لوگوں کی باتیں غور سے سنتے تھے، جو توحید کا پرچم اٹھائے دین حق کی تلاش میں لگے تھے۔[1] آپ اپنے متعلق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: میں کعبہ کے صحن میں بیٹھا ہوا تھا، وہاں زید بن عمرو بن نفیل بھی تشریف فرما تھے، اتنے میں امیہ بن ابی الصلت کا گذر ہوا، اس نے کہا: اے خیر کے طالب کیسے صبح کی؟ زید نے کہا: خیر وعافیت کے ساتھ، اس نے کہا: کیا خیر کو پا لیا؟ زید نے جواب دیا: نہیں، اس پر اس نے کہا: کل دین یوم القیامۃ الا ما مضٰی فی الحنیفیۃ بُورُ[2] ’’قیامت کے دن ابراہیمی (دین) کے علاوہ تمام ادیان ہلاکت کا سبب ہوں گے۔‘‘ اور رہی یہ بات کہ یہ نبی منتظر تو ہم میں سے یا تم میں سے ہوگا۔ تو ابوبکر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اس سے قبل میں نے کسی نبی کی بعثت اور اس کے انتظار سے متعلق نہیں سنا تھا۔ یہ سن کر میں ورقہ بن نوفل کے پاس گیا جو آسمان میں اکثر غور و فکر کیا کرتے تھے اور اکثر آہستہ سینے سے آواز نکالنے والے تھے۔ میں ان سے ملا اور یہ واقعہ بیان کیا، تو انہوں نے کہا: ہاں بیٹے! ہم کتاب وعلم والے ہیں، ہوشیار ہو جاؤ یہ نبی جن کا انتظار ہو رہا ہے، وہ عرب کے بہترین نسب میں سے ہوگا اور میں علم انساب کا ماہر ہوں۔ تمہاری قوم قریش عربوں میں سب سے اعلیٰ نسب کی حامل ہے۔ میں نے عرض کیا: چچا! وہ نبی کیا کہیں گے؟ انہوں نے کہا: وہ وہی کہیں گے جس کے کہنے کا اللہ حکم دے گا، نہ وہ ظلم کریں گے نہ ان پر ظلم ہوگا اور نہ آپس میں ایک دوسرے پر ظلم کی دعوت دیں گے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی میں فوراً ایمان لایا اور آپ کی
[1] مواقف الصدیق مع النبی بمکۃ، د: عاطف لماضۃ:۶۔ [2] تاریخ الخلفاء للسیوطی: ۵۲۔