کتاب: سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 56
کے صف اوّل میں ہونے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد افضل ترین ہونے پر کوئی تعجب نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
((خیارکم فی الجاہلیۃ خیارکم فی الاسلام اذا فقہوا)) [1]
’’تم میں جو جاہلیت میں بہتر تھے وہ حالت اسلام میں بھی بہتر ہیں، بشرطیکہ اسلام کی صحیح سمجھ آجائے۔‘‘
استاد رفیع العظم دور جاہلیت میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی زندگی پر گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’الٰہی ایسا شخص جو بتوں کے درمیان بغیر کسی دین وشریعت کے نشوونما پایا ہو، اس کے اخلاق، فضائل کا یہ عالم ہو اور عفت و مروت کو اس درجہ تھامے رکھا ہو…… ایسا شخص یقینا اس قابل ہے کہ وہ اسلام کو دل کی گہرائیوں سے قبول کرے، ہادی برحق پر سب سے پہلے ایمان لانے والا، اہل کبر وعناد کی ناکوں کو اسلام کی طرف سبقت کر کے خاک آلود کرنے والا اور اللہ کے سیدھے دین کی طرف ہدایت کی راہ ہموار کرنے والا بنے اور اس کے نقش قدم پر چل کر ہدایت قبول کرنے والوں کے دلوں سے رذائل اور برے اخلاق کی جڑوں کو اکھاڑ پھینکے۔‘‘[2]
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اللہ نے کس قدر عالی مقام عطا فرمایا تھا کہ اسلام سے قبل قریشی معاشرہ میں بلند انسانی قدروں، اخلاق حمیدہ، عادات کریمانہ کا اتنا بڑا سرمایہ رکھتے تھے۔ اہل مکہ نے انسانی قدروں اور اخلاق میں دوسرے لوگوں پر سبقت رکھنے کے سلسلہ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کے حق میں شہادت دی، قریش میں ایسا کوئی نظر نہیں آتا کہ جس نے آپ پر عیب لگایا ہو یا آپ کی تنقیص اور تذلیل کی ہو جیسا کہ کمزور مسلمانوں کے ساتھ ان کا وتیرہ تھا۔ ان کے نزدیک آپ کے اندر صرف یہی خامی تھی کہ آپ اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتے تھے۔[3]
[1] تاریخ الدعوۃ فی عہد الخلفاء الراشدین: ۴۳۔
[2] اشہر مشاہیر الاسلام: ۱/۱۲۔
[3] منہاج السنۃ النبویۃلابن تیمیۃ : ۴/۲۸۸،۲۸۹، بحوالہ ابوبکر الصدیق افضل الصحابۃ واحقہم بالخلافۃ لمحمد عبدالرحمن قاسم: ۱۸،۱۹۔