کتاب: سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 54
حیثیت کے مالک تھے۔[1] مختلف امور میں آپ شہرت کے حامل تھے: علم انساب: عرب کی تاریخ اور انساب کے علماء میں آپ کا شمار ہوتا تھا، آپ کو اس میں بڑی مہارت حاصل تھی۔ بہت سے علمائے انساب کے آپ استاذ تھے، جیسے عقیل بن ابی طالب وغیرہ اور آپ کے اندر ایسی خصوصیت تھی جس کی وجہ سے عربوں میں آپ ہر دل عزیز تھے۔ آپ بخلاف دوسروں کے انساب میں عیب نہیں لگاتے تھے اور نہ ان کے نقائص وعیوب کو ذکر کرتے تھے [2] آپ قریش میں قریشی انساب کے سب سے زیادہ ماہر، ان کو سب سے زیادہ جاننے والے اور ان کے خیر و شر سے سب سے زیادہ واقف تھے۔[3] اسی سے متعلق عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((ان ابابکر اعلم قریش بانسابہا)) [4] ’’یقینا ابوبکر قریش میں ان کے انساب کا سب سے زیادہ علم رکھتے ہیں۔‘‘ تجارت: دور جاہلیت میں آپ تاجر تھے، تجارت کے لیے آپ سر زمین شام میں بصریٰ پہنچے اور مختلف شہروں کا سفر کیا، آپ کا تجارتی رأس المال چالیس ہزار درہم تھا۔ بڑی سخاوت سے اپنا مال خرچ کرتے، جود و سخا اور مہمان نوازی میں آپ جاہلیت میں مشہور تھے۔[5] اپنی قوم میں محبت والفت کا مرکز: ابن اسحق نے سیرت میں ذکر کیا ہے کہ لوگ آپ سے غایت درجہ محبت کرتے تھے آپ کے فضل عظیم اور اخلاق کریمانہ کے سب معترف تھے۔ لوگ مختلف اسباب، علم، تجارت اور حسن مجالست کی وجہ سے آپ کے پاس آتے اور آپ سے محبت کرتے تھے۔[6] ہجرت کے ارادہ سے جب آپ مکہ سے نکلے تو راستے میں ابن الدغنہ جب آپ سے ملا تو اس نے صاف طور سے کہا: آپ خاندان کی زینت ہیں، مشکلات میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں، فقراء اور محتاجوں پر خرچ کرتے ہیں اور لوگوں کے ساتھ بھلائی کرتے ہیں۔[7] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ابن الدغنہ کے اس قول پر گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عظیم ترین مناقب میں سے ابن الدغنہ کا یہ قول ہے، یہاں ابن الدغنہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ
[1] نہایۃ الارب: ۱۹/۱۰، بحوالہ تاریخ الدعوۃ: یسری محمد، ۴۲۔ [2] التہذیب: ۲/۱۸۳۔ [3] الاصابۃ : ۴؍۱۴۶۔ [4] مسلم: ۲۴۹۰، الطبرانی فی الکبیر: ۳۵۸۲۔ [5] ابوبکر الصدیق: علی الطنطاوی، ۶۶، التاریخ الاسلامی: الخلفاء الراشدون، محمود شاکر ۳۰۔ [6] السیرۃ النبویۃ لابن ہشام: ۱/۳۷۱۔ [7] البخاری: مناقب الانصار، ۳۹۰۵۔