کتاب: سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 51
۳۔ محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہما :
یہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کے بطن سے تھے۔ حجۃ الوداع کے موقع پر مدینہ کی میقات ’’ذوالحلیفہ‘‘ میں ان کی ولادت ہوئی۔ نوجوانان قریش میں سے تھے۔ امیرالمومنین علی رضی اللہ عنہ کی گود میں ان کی پرورش ہوئی اور انہوں نے اپنے دور خلافت میں آپ کو مصر کا گورنر مقرر فرمایا تھا اور وہیں قتل ہوئے۔[1] (فقہائے سبعہ میں سے قاسم بن محمد آپ ہی کے صاحبزادے تھے۔)
۴۔ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما :
یہ ’’ذات النطاقین‘‘ کے نام سے مشہور ہیں۔ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے بڑی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ’’ذات النطاقین‘‘ کے لقب سے نوازا تھا کیونکہ ہجرت کے موقع پر انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اپنے والد کے لیے توشہ تیار کیا اور پھر اس کو باندھنے کے لیے کوئی چیز نہ ملی تو اپنی کمر بند کو پھاڑ کر توشہ باندھ دیا۔ زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ سے ان کی شادی ہوئی اور بحالت حمل مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ ہجرت کے بعد مدینہ میں ان کے بطن سے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی ولادت ہوئی جو ہجرت کے بعد پیدا ہونے والے سب سے پہلے بچے تھے۔ اسماء رضی اللہ عنہا کو سو (۱۰۰) سال کی عمر ملی، لیکن نہ عقل میں کوئی تغیر آیا اور نہ کوئی دانت گرا۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے چھپن (۵۶) احادیث روایت کی ہیں۔ آپ سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ، آپ کے بیٹے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما ، عروہ بن زبیر رحمہ اللہ اور عبداللہ بن ابی ملیکہ رضی اللہ عنہ وغیرہ نے احادیث روایت کی ہیں۔ آپ بڑی جودو سخا کی مالک تھیں، مکہ میں ۷۳ہجری میں انتقال ہوا۔[2]
۵۔ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا :
آپ صدیقہ بنت صدیق ہیں۔ آپ کی عمر جب چھ سال تھی آپ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی کی اور نو سال کی عمر میں شوال کے مہینہ میں آپ کی رخصتی ہوئی۔ خواتین میں سب سے بڑی عالمہ فاضلہ تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ’’ام عبداللہ‘‘ کی کنیت عطا فرمائی، آپ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مثالی محبت تھی۔[3]
امام شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مسروق رحمہ اللہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے جب حدیث روایت کرتے تو فرماتے: ((حدثتنی الصدیقۃ بنت الصدیق المبرأۃ حبیبۃ حبیب اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم ))’’مجھ سے صدیقہ بنت صدیق، اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوبہ نے حدیث بیان کی جن کی براء ت اللہ نے نازل فرمائی۔‘‘
آپ کی مرویات کی تعداد دو ہزار دو سو دس (۲۲۱۰) ہے۔ بخاری ومسلم کی متفق علیہ روایات ایک سو چوہتر(۱۷۴) ہیں، صرف بخاری میں چون (۵۴) اور صرف مسلم میں انہتر (۶۹) احادیث مروی ہیں۔[4]
[1] نسب قریش: ۲۷۷، الاستیعاب: ۳/۱۳۶۶۔
[2] سیر اعلام النبلاء: ۲/۲۸۷۔
[3] تاریخ الدعوۃ فی عہد الخلفاء الراشدین: ۳۴۔
[4] سیر اعلام النبلاء: ۲/ ۱۳۹، ۱۴۵۔