کتاب: سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 49
ہدیہ قبول کر لیں۔‘‘ [1] اور اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر یہ آیت نازل فرمائی:
لَّا يَنْهَاكُمُ اللَّـهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ (الممتحنۃ: ۸)
’’جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی نہیں لڑی اور تمہیں جلا وطن نہیں کیا، ان کے ساتھ سلوک واحسان کرنے اور منصفانہ بھلے برتاؤ کرنے سے اللہ تعالیٰ تمہیں نہیں روکتا، بلکہ اللہ تعالیٰ تو انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔‘‘
یعنی اللہ تعالیٰ ان کافروں کے ساتھ حسن سلوک اور بھلائی کا برتاؤ کرنے سے نہیں روکتا جنہوں نے مسلمانوں کو نہ تو ستایا اور نہ دین کے بارے میں جھگڑے اور نہ مسلمانوں کو گھروں سے نکالا ہے۔ جیسے عورتیں اور کمزور لوگ۔ ان کے ساتھ صلہ رحمی، ان کی ضیافت، پڑوس کے حقوق وغیرہ سے اسلام نہیں روکتا اور نہ ان کے ساتھ عدل وانصاف مثلاً حقوق کی ادائیگی، ایفائے عہد، امانت کی ادائیگی اور ان سے خریدی ہوئی اشیاء کی پوری قیمت کی ادائیگی سے روکتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ تو عدل وانصاف کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے اور انہیں پسند فرماتا ہے اور اس کے برخلاف ظلم کرنے والوں کو ناپسند کرتا ہے اور انہیں سزا دے گا۔[2]
۲۔ ام رومان بنت عامر بن عویمر رضی اللہ عنہا :
یہ بنو کنانہ بن خزیمہ سے ہیں۔ ان کے پہلے شوہر حارث بن سنجرہ کا مکہ میں انتقال ہو گیا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے شادی کر لی۔ یہ شروع دور ہی میں اسلام سے مشرف ہوئیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی اور مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ یہ عبدالرحمن اور ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہما کی والدہ ہیں۔ ۶ہجری میں مدینہ کے اندر ان کی وفات ہوئی۔[3]
۳۔ اسماء بنت عمیس بن معبد بن حارث رضی اللہ عنہا :
ان کی کنیت ام عبداللہ ہے۔ یہ مسلمانوں کے دار ارقم میں داخل ہونے سے قبل ہی اسلام سے مشرف ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کر چکی تھیں۔ یہ پہلے پہل ہجرت کرنے والی خوش نصیب خواتین میں سے ہیں۔ انہوں نے اپنے شوہر جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت کی پھر ان کے ساتھ وہاں سے ہجرت کر کے ۷ہجری میں مدینہ تشریف لائیں۔ جنگ موتہ ۸ہجری میں جب جعفر رضی اللہ عنہ نے جام شہادت نوش کر لیا تو ان
[1] بخاری ومسلم میں اسماء رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ قریش سے مصالحت کے دور میں ان کی والدہ ان کے پاس آئیں اور وہ مشرکہ تھیں، انہوں نے اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فتویٰ دریافت کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’صلی امک۔ اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔‘‘ البخاری: الہبۃ، ۲۶۲۰، مسلم: الزکاۃ، ۱۰۰۳۔ (مترجم)
[2] التفسیر المنیر للزُّحیلی: ۲۸/۱۳۵۔
[3] الاصابۃ: ۸/۳۹۱۔