کتاب: سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 483
معدودے چند کے علاوہ تم سب شیطان کے پیروکار بن جاتے۔‘‘
یہاں پر اللہ تعالیٰ نے رعایا کا اپنے امور ومسائل کو ذمہ دار کے سپرد کرنے کو حصول علم اور رائے کی درستی کا ذریعہ بتلایا ہے اور اگر ذمہ دار پر کوئی چیز مخفی رہ جائے جس کی صحت رعایا کے سامنے واضح ہو جائے تو وہ اس کو اس سے بیان کریں اور اس کو مشورہ دیں۔ اسی لیے مشورہ کا حکم دیا تاکہ صحیح بات کو اختیار کیا جا سکے۔[1]
خلافت صدیقی میں ہم دیکھتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسلامی فوج کے امراء وقائدین کو شام کی طرف روانہ فرمایا اور فوج کا معاملہ ان کے حوالے کیا اور ان سے فرمایا: اے ابوعبیدہ، معاذ، شرحبیل، یزید! تم اس دین کے محافظ ہو۔ میں نے اس لشکر کا معاملہ تمہارے حوالے کیا ہے تم اس سلسلہ میں کوشش کرو اور ثابت قدم رہو اور اپنے دشمن کے مقابلہ میں ایک ہو جاؤ۔[2] پھر آپ نے قائدین کو لشکر کے حالات کا خیال رکھنے اور ان کے ساتھ اخلاص کا برتاؤ کرنے اور اتحاد و اتفاق قائم رکھنے کا حکم فرمایا تاکہ ان کی آراء مختلف نہ ہوں۔[3] اور مزید فرمایا: جب تم شام پہنچ جاؤ اور دشمن سے سامنا ہو اور ان سے قتال پر تمہارا اتفاق ہو جائے تو تمہارے امیر ابوعبیدہ ہوں گے اور اگر ابوعبیدہ تم تک نہ پہنچ سکیں اور دشمن سے قتال ناگزیر ہو جائے تو تمہارے امیر یزید بن ابی سفیان ہوں گے۔[4]
اس طرح ابوبکر رضی اللہ عنہ نے لشکر اسلام کی قیادت ایک قائد کے حوالے کی اور اس کو اس کا ذمہ دار قرار دیا تاکہ آراء مختلف نہ ہوں اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے اس کی تاکید فرمائی، فرمایا: تم شام میں ہمارے امراء میں سے ہو لیکن اگر جنگ ہو تو تمہارے امیر ابوعبیدہ بن جراح ہوں گے۔[5]
آپ کی یہی رائے فتح عراق کے قائدین سے متعلق بھی تھی چنانچہ مثنیٰ بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: میں سر زمین عراق میں تمہارے پاس خالد بن ولید کو بھیج رہا ہوں…… جب تک وہ تمہارے ساتھ وہاں رہیں وہ امیر ہوں گے، اگر وہ وہاں سے چلے جائیں تو پھر تم امیر ہو۔ والسلام علیک! [6]
اس کی فرمانبرداری میں سبقت:
حروب ارتداد میں ابوبکر رضی اللہ عنہ نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو مسیلمہ کذاب کے سلسلہ میں لکھا اور انہیں اس کے مقابلہ میں جانے کا حکم فرمایا۔ خط ملتے ہی خالد رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں کو جمع فرمایا اور خلیفہ کا خط ان کو پڑھ کر سنایا اور ان کی رائے معلوم کی۔ لوگوں نے یک زبان ہو کر یہ کہا: رائے آپ کی رائے ہے ہم میں سے کوئی آپ کے احکام کی مخالفت نہیں کرے گا۔[7]
[1] الاحکام السلطانیۃ للماوردی: ۴۸۔
[2] فتوح الشام للازدی: ۷۔
[3] الفتوح ابن اعثم: ۱/۸۴۔
[4] فتوح الشام للازدی: ۷۔
[5] فتوح الشام للازدی: ۴۸۔
[6] الوثائق السیاسۃ: حمید اللہ ۳۷۱۔
[7] الفتوح: ابن اعثم ۱/۲۹۔