کتاب: سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 468
خالد: ہاں، بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ جرجہ: وہ آپ کے برابر کیسے ہوگا، حالانکہ آپ لوگوں نے اس سلسلہ میں سبقت کی ہے؟ خالد: ہم نے یہ دین قبول کیا اور اپنے نبی سے بیعت کی، جبکہ آپ ہمارے درمیان زندہ تھے، آسمانی خبریں آپ کے پاس آتی تھیں اور ہمیں کتاب کی خبر دیتے اور معجزات دکھاتے تھے، اور جو ہم نے دیکھا اور سنا جو اس کو دیکھے اور سنے اس پر لازم ہے کہ اسے قبول کرے اور پیروی کرے۔ تم لوگوں نے اس چیز کا مشاہدہ نہیں کیا جس کا ہم نے مشاہدہ کیا اور جو عجائب اور دلیلیں ہم نے سنیں وہ تم نے نہیں سنیں، تو تم میں سے جو شخص اخلاص نیت کے ساتھ اس دین میں داخل ہو وہ ہم سے افضل ہے۔ جرجہ: واللہ آپ سچ کہہ رہے ہیں، دھوکا تو نہیں دے رہے ہیں؟ خالد: اللہ کی قسم میں نے تم سے سچ بات کہی ہے اور جو تم نے سوال کیا ہے اس پر اللہ گواہ ہے۔ یہ سن کر جرجہ نے اپنی ڈھال پلٹ دی اور خالد رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہو گیا اور عرض کیا: مجھے اسلام سکھائیے؟ خالد رضی اللہ عنہ اسے لے کر اپنے خیمہ میں آگئے، اس کو غسل کرنے کا حکم دیا اور اسے دو رکعت نماز پڑھائی۔ جرجہ کے خالد رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہو جانے کے ساتھ ہی رومیوں نے زور دار حملہ کیا جس سے مسلمان اپنی جگہوں سے ہٹ گئے، صرف دفاعی دستہ اپنی جگہ ڈٹا رہا، جس پر عکرمہ بن ابی جہل اور حارث بن ہشام رضی اللہ عنہما متعین تھے۔[1] رومیوں کے میسرہ کا مسلمانوں کے میمنہ پر حملہ: اسلامی فوج پر حملہ کرنے کے لیے رومی رات کی تاریکی کی طرح آگے بڑھے اور ان کے میسرہ نے مسلمانوں کے میمنہ پر حملہ کر دیا، جس سے اسلامی فوج کا قلب میمنہ کی طرف سے غیر محفوظ ہو گیا۔ رومی، اسلامی فوج کی صفوں میں خلل پیدا کرنے اور ساقہ تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ یہ منظر دیکھ کر معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کو آواز دی: اے اللہ کے مسلمان بندو! یہ لوگ تم پر غالب آنے کے لیے ٹوٹ پڑے ہیں، اللہ کی قسم انہیں صبر و استقامت ہی دھکیل سکتی ہے۔ پھر آپ اپنے گھوڑے سے اتر پڑے اور فرمایا: جو میرے گھوڑے پر سوار ہو کر لڑنا چاہے وہ لے لے اور خود پیادہ فوج کے ساتھ شامل ہو کر قتال میں مصروف گئے۔[2] ازد، مذحج، حضرموت اور خولان کے قبائل نے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور دشمن کو روکنے میں کامیاب ہوئے پھر پہاڑوں کے مانند رومیوں نے ان پر حملہ کر دیا اور مسلمان میمنہ سے قلب کی طرف چلے گئے اور ایک گروہ الگ ہو کر معسکر کی طرف چلا گیا اور مسلمانوں کا بہت بڑا گروہ ثابت قدم رہا اور وہ اپنے اپنے پرچم تلے جنگ کرتے رہے اور زبید کے لوگ منتشر ہو گئے پھر انہوں نے ایک دوسرے کو آواز دی اور پلٹ کر رومیوں پر زور دار حملہ کیا اور انہیں پیش قدمی سے روک دیا اور جو مسلمان منتشر ہو گئے تھے ان کے تعاقب سے انہیں باز رکھا اور جو لوگ
[1] البدایۃ والنہایۃ: ۷/۱۳۔ [2] العملیات التعرضیۃ والدفاعیۃ: ۱۶۹۔