کتاب: سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 467
میدان قتال میں رومی جرنیل کا قبول اسلام:
رومی فوج کا ایک بڑا جرنیل جرجہ نکلا اور خالد رضی اللہ عنہ کو آواز دی، آپ اس کے قریب پہنچے یہاں تک کہ دونوں کے گھوڑوں کی گردنیں آپس میں جا ملیں۔ جرجہ نے کہا: اے خالد! میں آپ سے کچھ پوچھنا چاہوں گا، آپ صحیح صحیح مجھے بتائیے، جھوٹ مت بولیے گا کیونکہ جھوٹ بولنا آزاد مرد کی شان کے منافی ہے۔ مجھے دھوکہ میں مت رکھیے گا۔ کریم النفس شخص اللہ کے ساتھ نرم پڑنے والے کو دھوکا نہیں دیا کرتا۔ کیا اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی پر آسمان سے کوئی تلوار اتاری تھی جسے انہوں نے تمہیں عطا کیا ہے کہ جس پر بھی اسے کھینچتے ہو شکست دے دیتے ہو؟
خالد: نہیں۔
جرجہ: پھر آپ کا نام سیف اللہ کیوں پڑا؟
خالد: اللہ تعالیٰ نے ہمارے درمیان اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا، آپ نے ہمیں دعوت دی، ہم نے آپ کی بات نہ مانی اور آپ سے ہم سب دور ہو گئے پھر ہم میں سے بعض لوگوں نے آپ کی تصدیق کی اور آپ کی پیروی اختیار کی اور بعض نے آپ کی تکذیب کی اور آپ سے دوری اختیار کی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہدایت بخشی۔ ہم نے آپ سے بیعت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کہا: تم اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہو، جسے اللہ نے مشرکین پر کھینچا ہے۔[1] اور آپ نے میرے لیے فتح ونصرت کی دعا کی۔ اسی وجہ سے میرا نام سیف اللہ پڑ گیا، میں مشرکین پر مسلمانوں میں سب سے زیادہ سخت ہوں۔
جرجہ: آپ لوگ کس بات کی طرف دعوت دیتے ہیں؟
خالد: ہم لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت اور جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی طرف سے لے کر آئے ہیں اس کے اقرار کی دعوت دیتے ہیں۔
جرجہ: جو آپ کی دعوت نہ قبول کرے؟
خالد: وہ جزیہ ادا کرے اور ہم اس کی حفاظت کریں گے۔
جرجہ: جو جزیہ دینے کے لیے تیار نہ ہو؟
خالد: ہم اس کے خلاف اعلان جنگ کریں گے پھر اس سے قتال کریں گے۔
جرجہ: آج جو آپ کی دعوت قبول کرے اور اس دین میں داخل ہو جائے، اس کا کیا مقام ہوگا؟
خالد: اللہ تعالیٰ نے ہم پر جو فرض کیا ہے اس میں ہمارا ایک ہی مقام ہے، شریف و رذیل اور اوّل اور آخر سب برابر ہیں۔
جرجہ: کیا آج جو آپ کے دین میں داخل ہوگا اسے آپ لوگوں ہی کی طرح اجر و ثواب ملے گا؟
[1] البدایۃ والنہایۃ: ۷/۱۳۔