کتاب: سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 465
’’اللہ، اللہ، تم عرب کی طرف سے دفاع کرنے والے اور اسلام کے انصار ہو۔ اور تمہارے دشمن روم کی طرف سے دفاع کرنے والے اور شرک کے انصار ہیں۔ اے اللہ! آج تیرا دن ہے، الٰہی اپنے بندوں پر اپنی مدد نازل فرما!‘‘ [1]
عرب نصاریٰ میں سے ایک شخص نے خالد رضی اللہ عنہ سے کہا:
’’رومی کتنے زیادہ اور مسلمان کتنے کم ہیں۔‘‘
خالد رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’تو تباہ ہو، کیا تو مجھے رومیوں سے ڈراتا ہے؟ افراد کی تعداد کا اعتبار نہیں۔ اصل اعتبار نصرت وغلبہ اور شکست و خذلان کا ہے۔ واللہ میری خواہش تو یہ ہے کہ کاش آج میرا اشقر گھوڑا شفایاب ہو چکا ہوتا اور دشمن دوگنا ہوتا۔‘‘
عراق سے آتے ہوئے آپ کے گھوڑے کے پیر زخمی ہو گئے تھے۔[2]
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ پادریوں اور راہبوں کی آواز سنتے تو فرماتے:
((اللہم زلزل اقدامہم، وارعب قلوبہم، وانزل علینا السکینۃ، وألزمنا کلمۃ التقوی، وحبِّب إلینا اللقاء، وارضنا بالقضاء۔))[3]
’’اے اللہ! دشمن کے پاؤں اکھاڑ دے، ان کے دلوں کو مرعوب کر دے، ہمارے اوپر سکینت نازل فرما اور کلمہ تقویٰ پر ہم کو قائم رکھ، قتال ہمارے لیے محبوب کر دے اور قضاء وقدر پر ہمیں راضی کر دے۔‘‘
۵۔ روم:… رومی اپنے کبر وغرور کے ساتھ کالی بدلیوں کی طرح امڈ پڑے اور میدان و صحرا پر چھا گئے، بلند آواز سے چیخنے لگے، ان کے پادری وراہب انجیل پڑھ پڑھ کر ان کو سناتے اور جوش دلاتے۔[4]
رومی یرموک سے قریب واقوصہ کے مقام پر جمع ہوئے اور یہ وادی ان کے لیے خندق ثابت ہوئی۔ رومیوں نے کردوس کا اسلوب اختیار کرتے ہوئے تیاری کی۔ بایں طور کہ دو لائنیں قائم کیں، ہر پانچ کو ایک دائرے میں رکھا اور ہر دو پانچ کے درمیان حد فاصل رکھا پھر دوسری لائن پہلی لائن کے پیچھے رکھی اور قتال میں مندرجہ ذیل ترتیب اختیار کی:
تیر اندازوں کو مقدمہ میں رکھا۔ ان کے ذمے تیر چلا کر قتال کا آغاز کرنا اور پھر میمنہ ومیسرہ کے پیچھے چلے جانا تھا۔
شہسواروں کو میمنہ ومیسرہ میں رکھا۔ ان کی ذمہ داری تیر اندازوں کی حفاظت و حمایت تھی، یہاں تک کہ واپس پیچھے چلے جائیں۔
[1] البدایۃ والنہایۃ: ۷/۱۰۔
[2] البدایۃ والنہایۃ: ۷/۱۰۔
[3] ابوبکررجل الدولۃ: ۸۸۔
[4] ترتیب و تہذیب البدایۃ والنہایۃ:۱۶۳۔