کتاب: سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 463
تلاوت کرتے تاکہ ان کی روحانی اور معنوی قوت میں اضافہ ہو۔ فوج کے خطیب ابوسفیان بن حرب رضی اللہ عنہ مقرر ہوئے جو فوج کی صفوں میں جا جا کر قتال پر جوش دلاتے[1] اور سپہ سالار اعظم خالد بن ولید رضی اللہ عنہ درمیان میں کبار صحابہ کے ساتھ تھے۔
اسلامی فوج نے خالد رضی اللہ عنہ کی قیادت میں اپنی تیاری مکمل کر لی اور ہر قائد اپنی فوج کے پاس جاتا اور انہیں جہاد و صبر پر ابھارتا اور جوش دلاتا۔ اسلامی فوج کے قائدین یہ سمجھتے تھے کہ یہ معرکہ عظیم نتائج کا پیش خیمہ ثابت ہوگا اور یہ جنگ فیصلہ کن ثابت ہو گی۔ خالد رضی اللہ عنہ کو یہ معلوم تھا کہ اس معرکہ میں رومی لشکر کی ہزیمت کا مطلب پوری سرزمین شام میں ان کی ہزیمت ہے اور اس سے شام کے دروازے مسلمانوں کے لیے بالکل کھل جائیں گے اور کوئی رکاوٹ نہ رہے گی اور پھر یہاں سے مصر کا راستہ کھل جائے گا اور پھر ایشیا اور یورپ کو فتح کرنا آسان ہو جائے گا۔[2]
ایمانی تیاری:
جب ایمان و کفر کی دونوں افواج کا آمنا سامنا ہوا اور دونوں نے ایک دوسرے کو دعوت مبارزت دی، ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کو وعظ کرتے ہوئے فرمایا:
’’اللہ کے بندو! اللہ کے دین کی مدد کرو، اللہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا۔ یقینا اللہ کا وعدہ برحق ہے۔ اے مسلمانو! صبر سے کام لو، صبر کفر سے نجات اور اللہ کی رضا کے حصول کا ذریعہ ہے اور عار و رسوائی کو ختم کرنے والا ہے۔ اپنی صفوں سے ہٹنا نہیں۔ ایک قدم بھی ان کی طرف مت بڑھو، دشمن سے قتال میں پہل نہ کرو، دشمن کی طرف نیزوں کو سیدھا رکھو اور ڈھال کے ذریعہ سے اپنے آپ کو بچاؤ، خاموشی کو لازم پکڑو، دل ہی دل میں اللہ کا ذکر کرتے رہو، یہاں تک کہ میں تمہیں قتال کا حکم دوں، ان شاء اللہ۔‘‘
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اور لوگوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
’’اے قرآن والو! اے اللہ کی کتاب کے حافظو! اے ہدایت کے مددگار و حق کے طرف دارو! اللہ کی رحمت اور اس کی جنگ صرف آرزوؤں سے حاصل نہیں ہوسکتی۔ اللہ تعالیٰ اپنی مغفرت اور وسیع رحمت صرف سچوں کو عطا کرتا ہے۔ کیا تم اللہ کا یہ ارشاد نہیں سنتے:
وَعَدَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ (النور: ۵۵)
’’تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان لائے ہیں اور نیک اعمال کیے ہیں، اللہ تعالیٰ وعدہ فرما چکا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا، جیسے کہ ان لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا جو ان سے پہلے تھے ۔‘‘
[1] البدایۃ والنہایۃ ۷/۸۔
[2] العملیات التعرضیۃ والدفاعیۃ عند المسلمین: ۱۶۴۔