کتاب: سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 461
اسلامی فوج کی تعداد تقریباً تیس ہزار ہو گئی۔ خالد رضی اللہ عنہ اپنے لشکر کے ساتھ مناسب وقت پر پہنچے اور گھمسان کی جنگ شروع ہوئی۔ خالد اور عمرو رضی اللہ عنہما کی عسکری مہارت کا اس فیصلہ کن فتح میں کافی دخل رہا۔ چنانچہ خطرات سے کھیلنے والی فوج کو مقرر کیا گیا، جو دشمن کی صفوں کو چیرتی ہوئی رومی جرنیل تک پہنچ گئی اور اس کا کام تمام کر دیا۔ جرنیل کے قتل ہوتے ہی رومی فوج ہمت ہار گئی اور مختلف سمتوں کی طرف راہ فرار اختیار کی۔[1] شام میں معرکہ اجنادین، روم اور مسلمانوں کے مابین پہلا بڑا معرکہ تھا۔ جب ہزیمت کی خبر حمص میں قیصر روم ہرقل کو پہنچی تو اسے حادثے کی سنگینی کا احساس ہو گیا۔ [2] خالد رضی اللہ عنہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو فتح کی خوشخبری دیتے ہوئے خط لکھا: ’’خلیفہ رسول ابوبکر رضی اللہ عنہ کے نام مشرکین کے خلاف اللہ کی کھلی تلوار خالد بن ولید کی طرف سے۔ السلام علیکم! میں اس اللہ کی حمدوثنا بیان کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ اما بعد! اے صدیق! میں آپ کو یہ خبر دے رہا ہوں کہ ہم مشرکین کے مقابلہ میں اترے، انہوں نے اجنادین میں بہت بڑی فوج اکٹھی کی، اپنی صلیب بلند کی اور اپنی کتابیں کھولیں، اللہ کی قسمیں کھائیں کہ ہم کو ختم کر کے یا اپنے ملک سے نکال کر ہی دم لیں گے، میدان سے فرار نہیں اختیار کریں گے۔ ہم بھی اللہ پر اعتماد و توکل کرتے ہوئے ان کے مقابلہ میں ڈٹ گئے، نیزوں سے ان پر وار کیا، پھر ہم نے تلواریں سنبھالیں اور ہر وادی، میدان اور راستہ میں ان سے مقابلہ کیا۔ میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے اپنے دین کو غلبہ عطا کیا، دشمن کو ذلیل کیا اور اپنے دوستوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا۔ والسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔‘‘ جب یہ خط ابوبکر رضی اللہ عنہ کو موصول ہوا تو بے حد خوش ہوئے اور فرمایا: تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے مسلمانوں کو فتح عطا کی اور اس سے میری آنکھوں کو ٹھنڈا کیا۔ [3] ۲۔ معرکہ یرموک:… اجنادین میں روم کی شکست فاش اور مسلمانوں کی عظیم فتح وانتصار کے بعد فوج واپس ہوئی، مسلمانوں کو اس سے اطمینان پہنچا اور اسلامی فوج یرموک میں خلیفہ کے حکم کے نفاذ کے لیے جمع ہو گئی۔ ادھر رومی افواج تھیوڈور کی قیادت میں حرکت میں آئیں اور لمبے چوڑے میدان میں اتریں، جہاد سے نکل بھاگنے کا راستہ تنگ تھا اور یرموک سے قریب واقوصہ میں پڑاؤ ڈال دیا۔
[1] ابوبکر رضی اللہ عنہ : نزار الحدیثی ۷۰۔ [2] ابوبکر رضی اللہ عنہ : نزار الحدیثی ۷۱۔ [3] فتوح الشام للازدی: ۸۴۔۹۳۔