کتاب: سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 460
دیکھتے ہیں کہ ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ اس حکم کو بابرکت قرار دیتے ہیں اور خالد رضی اللہ عنہ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ابوعبیدہ اور خالد رضی اللہ عنہما خواہشات نفس سے پاک تھے، مصالح عامہ کو ترجیح دیتے تھے، ان کے پیش نظر اعمال میں اللہ کی رضا وخوشنودی تھی۔[1] اس کے اندر حکام، تحریکات کے ذمہ داران، علماء، دعاۃ ومبلغین، قائدین اور زعماء سب کے لیے تقرری ومعزولی کے موقع پر آپس میں طرز عمل کا عظیم درس ہے۔ ۱۔ معرکہ اجنادین:… خالد رضی اللہ عنہ شام پہنچے، بصریٰ فتح کیا، قائدین اسلام؛ ابوعبیدہ بن جراح، شرحبیل بن حسنہ، یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہم سے ملے، عسکری صورت حال کا جائزہ لیا، دقیق تفصیلات پر مطلع ہوئے اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے مؤقف کی بھی تفصیلات معلوم کیں، جو دریائے اردن کے کنارے رومی افواج کی جھڑپ سے بچتے ہوئے اسے خالی کرنے میں مصروف تھے تاکہ اسلامی فوج سے جا ملیں جبکہ دشمن پوری تیاری سے ان کے تعاقب میں تھا اور اس کوشش میں لگا ہوا تھا کہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو جنگ پر مجبور کر دے۔ لیکن عمرو رضی اللہ عنہ پوری طرح بیدار اور ہوشیار تھے اور بخوبی جانتے تھے کہ ان حالات میں جنگ کرنا مصلحت کے خلاف ہے کیونکہ آپ کی فوج سات ہزار سے زیادہ نہ تھی جبکہ رومی فوج اس سے کہیں زیادہ تھی۔ خالد رضی اللہ عنہ عسکری پوزیشن کا جائزہ لینے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ ان کے سامنے دو صورتیں ہیں: یا تو جلدی سے لشکر عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے جا ملیں اور ان کے ساتھ مل کر رومی فوج کے ساتھ فیصلہ کن جنگ کر کے رومی قوت کو تباہ کر دیں، اس طرح اسلامی فوج کا عسکری مؤقف مضبوط ہو جائے اور فلسطین میں مسلمانوں کے قدم جم جائیں گے، یا اپنی جگہ ٹھہرے رہیں اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو اپنے ساتھ آکر ملنے کو کہیں اور رومی فوج کا انتظار کریں جو دمشق سے ان کی طرف چل چکی تھی اور پھر اس کے ساتھ فیصلہ کن جنگ کریں۔ خالد رضی اللہ عنہ نے پہلی صورت کو ترجیح دی کیونکہ فلسطین میں رومی فوج پر غلبہ پانے کی صورت میں مسلمانوں کی واپسی کا راستہ محفوظ ہو جائے گا اور ان کے مراکز کو قوت ملے گی اور ایسی صورت میں وہ اس پوزیشن میں ہوں گے کہ رومی فوج کو چیلنج کر سکیں اور دشمن اپنے پیچھے سے خطرہ محسوس کرے گا پھر اس کی تدبیر میں لگ جائے گا اور اس کی فوج کا ایک حصہ اس میں مشغول ہو جائے گا اور ہجوم کے بجائے دفاع کی پوزیشن میں آجائے گا۔ چنانچہ خالد رضی اللہ عنہ یرموک سے فلسطین کی طرف روانہ ہوئے اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو اطلاع بھیجی کہ وہ رومی فوج کو دھوکہ میں رکھتے ہوئے وہاں سے منتقل ہونے میں لگے رہیں، یہاں تک کہ لشکر خالد رضی اللہ عنہ وہاں پہنچ جائے پھر ایک ساتھ مل کر رومی فوج پر حملہ کریں۔ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ اجنادین آگئے۔[2] اور جب لشکر خالد وہاں پہنچا تو
[1] التاریخ الاسلامی للحمیدی: ۹/۲۳۱۔ [2] اَجنادین فلسطین کے نواحی علاقہ میں ایک مقام کا نام ہے۔ المعجم الیاقوت ۱/۲۰۳۔