کتاب: سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 46
صاحب (ساتھی):
قرآن کریم میں اللہ رب العالمین نے یہ لقب آپ کو عطا فرمایا۔ ارشاد ربانی ہے:
إِلَّا تَنصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللَّـهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّـهَ مَعَنَا ۖ فَأَنزَلَ اللَّـهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَأَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِينَ كَفَرُوا السُّفْلَىٰ ۗ وَكَلِمَةُ اللَّـهِ هِيَ الْعُلْيَا ۗوَاللَّـهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (التوبۃ: ۴۰)
’’اگر تم ان نبی( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی مدد نہ کرو تو اللہ ہی نے ان کی مدد کی اس وقت جب کہ انہیں کافروں نے (دیس سے) نکال دیا تھا، دو میں سے دوسرا جبکہ وہ دونوں غار میں تھے، جب یہ اپنے ’’ساتھی‘‘ سے کہہ رہے تھے کہ غم نہ کر، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ پس جناب باری نے اپنی طرف سے تسکین اس پر نازل فرما کر ان لشکروں سے اس کی مدد کی جنہیں تم نے دیکھا ہی نہیں۔ اس نے کافروں کی بات پست کر دی اور بلند وعزیز اللہ کا کلمہ ہی ہے۔ اللہ غالب ہے، حکمت والا ہے۔‘‘
علماء کا اس پر اجماع ہے کہ یہاں اس آیت کریمہ میں صاحب (ساتھی) سے مراد ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں۔[1]
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے بیان کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غار میں پناہ گزیں تھے تو میں نے آپ سے عرض کیا: اگر ان کافروں میں سے کسی نے اپنے قدموں کی طرف دیکھ لیا تو وہ ہمیں دیکھ لے گا، تو اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((یا ابابکر ما ظنک باثنین اللہ ثالثہما۔)) [2]
’’اے ابوبکر ان دونوں کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جن کا تیسرا اللہ ہے۔‘‘
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عظیم ترین مناقب میں سے اللہ کا تعالیٰ یہ ارشاد ہے:
إِلَّا تَنصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللَّـهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا..... إِنَّ اللَّـهَ مَعَنَا (التوبۃ: ۴۰)
کیونکہ اس آیت کریمہ میں بلا اختلاف ’’صاحب‘‘ (ساتھی) سے مراد ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں اور غار میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کے ہونے سے متعلق بکثرت مشہور احادیث وارد ہیں۔ اس منقبت میں آپ کا کوئی شریک نہیں۔[3]
اتقی (بڑا متقی):
آپ کو یہ لقب اللہ تعالیٰ نے قرآن میں عطا فرمایا ہے:
وَسَيُجَنَّبُهَا الْأَتْقَ (اللیل: ۱۷)
[1] تاریخ الدعوۃ فی عہد الخلفاء: یسری محمد ھانی، ۳۹۔
[2] البخاری، فضائل الصحابۃ: ۳۶۵۳۔
[3] الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ : ۴/۱۴۸۔