کتاب: سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 459
اسلامی فوج کی قیادت سنبھالنے کا حکم فرمایا ہے۔ اللہ کی قسم! نہ میں نے اس کا مطالبہ کیا ہے اور نہ کبھی اس کا ارادہ تھا اور نہ اس سلسلہ میں نے ان کو لکھا ہے۔ اللہ آپ پر رحم فرمائے، آپ اپنی پوزیشن پر برقرار رہیں گے، آپ کا حکم نہیں ٹالا جائے گا، اور نہ آپ کی رائے کی مخالفت کی جائے گی اور آپ کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کیا جائے گا۔ آپ تو اسلامی سربراہوں میں سے ہیں، آپ کی فضیلت کا انکار نہیں کیا جا سکتا اور نہ آپ کی رائے سے بے نیازی ہو سکتی ہے۔ ہمارے اور آپ کے اوپر جو اللہ تعالیٰ نے نعمت و احسان کیا ہے اس کو مکمل فرمائے، ہمیں اور آپ کو عذاب جہنم سے محفوظ فرمائے۔ والسلام علیک ورحمۃ اللہ و برکاتہ‘‘[1]
اسی طرح خالد رضی اللہ عنہ نے مذکورہ خط کے ساتھ شام میں موجود مسلمانوں کے نام بھی خط ارسال فرمایا، جس میں لکھا:
اما بعد! اللہ تعالیٰ جس نے ہمیں اسلام کے ذریعہ سے عزت بخشی، اپنے دین کے ذریعہ سے شرف بخشا، اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے مکرم کیا اور ایمان کے ذریعہ سے فضیلت بخشی، اللہ کی رحمتیں ہمارے لیے بڑی وسیع ہیں اور اس کی نعمتوں سے ہم گھرے ہوئے ہیں۔ اس اللہ سے سوالی ہوں کہ اپنی نعمت کو ہم پر تمام کر دے۔ اللہ کے بندو! اللہ کی حمدو شکر بیان کرو، وہ اور عطا کرے گا؛ اور اللہ سے تمام عافیت کی رغبت کرو وہ عافیت کو دوام بخشے گا۔ اللہ کی نعمتوں کے شکر گذار بن کر زندگی بسر کرو۔ خلیفہ رسول اللہ کا خط مجھے موصول ہوا ہے جس میں انہوں نے مجھے آپ لوگوں کے پاس پہنچنے کا حکم دیا ہے۔ میں مکمل تیار ہو چکا ہوں گویا میرا گھوڑا مجاہدین کے ساتھ تمہارے پاس پہنچ چکا ہے لہٰذا اللہ کے وعدہ کی تکمیل اور حسن ثواب سے خوش ہو جاؤ، اللہ تعالیٰ ہمیں اور تمہیں ایمان کے ساتھ محفوظ رکھے اور ہمیں اور تمہیں اسلام پر ثابت قدم رکھے اور ہمیں اور تمہیں مجاہدین کا بہترین ثواب عطا فرمائے۔ والسلام علیکم۔‘‘[2]
عمرو بن طفیل بن عمرو ازدی یہ دونوں خط لے کر شام میں مسلمانوں کے پاس پہنچے۔ اس وقت مسلمان جابیہ میں تھے، انہیں خط سنایا۔ ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کا خط ان کے حوالے کیا۔ جب ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے خط پڑھا تو فرمایا: اللہ خلیفہ رسول کو ان کی رائے میں برکت عطا فرمائے، اور اللہ تعالیٰ خالد کو صحیح سالم رکھے۔[3]
دو عظیم قائدین کے مابین اس تعامل سے اسلامی اخوت کے معانی کا انکشاف ہوتا ہے جو توحید خالص سے وجود میں آتی ہے اور اخلاق حمیدہ سے مزین ہوتی ہے، جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا طرئہ امتیاز تھا۔ عراق میں بے پایاں فتوحات اور خلیفہ کے اعتماد کے باوجود خالد رضی اللہ عنہ کے اندر کوئی تغیر نہ آیا اور اپنی برتری کا خمار سوار نہ ہوا، بلکہ اس کے برعکس ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت و بزرگی کا اعتراف اور ان کی اطاعت کا اعلان کیا اور اس کے بالمقابل ہم
[1] مجموعۃ الوثائق السیاسیۃ: ۳۹۲۔
[2] فتوح الشام للازدی: ۶۸۔ ۷۲، بحوالہ الحمیدی۔
[3] فتوح الشام للازدی: ۶۸۔ ۷۲، بحوالہ الحمیدی۔