کتاب: سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 457
فوج کو ایک جگہ جمع کیا تاکہ دشمن مختلف علاقوں میں ان کے منتشر ہونے کی وجہ سے یکے بعد دیگرے ان کی قوت کو ختم نہ کر سکے۔ اسی طرح یرموک کو اسلامی افواج کے جمع ہونے کا مرکز قرار دینا اس بات کی دلیل ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اپنے دور میں جغرافیہ ارض سے بخوبی واقفیت تھی اور وہ مقامات ومواقع کا بخوبی علم وادراک رکھتے تھے اور یہ چیز جنگی معاملات و تدابیر میں عظیم فقاہت ہے، جس کی توفیق اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کی تھی۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ قرارداد جاری کی کہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اپنے لشکر کے ساتھ عراق سے شام منتقل ہو جائیں اور وہاں پہنچ کر اسلامی فوج کی قیادت سنبھال لیں کیونکہ اس وقت شام میں ایسے قائد کی ضرورت تھی جس کے اندر ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کی طاقت وصلاحیت، عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی زیرکی وسیاست اور عکرمہ رضی اللہ عنہ کی مہارت، یزید رضی اللہ عنہ کا اقدام وپیش قدمی کا جوہر یکجا ہو اور مسائل میں حتمی فیصلہ کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ عظیم عسکری صلاحیت کا مالک ہو، زیرکی وسیاست اور تدبیر اقدام وپیش قدمی کا جوہر اس کے اندر ہو، مہارت ودرایت کا مالک ہو اور طویل جنگی تجربہ رکھتا ہو۔[1] ابوبکر رضی اللہ عنہ کی نگاہ انتخاب خالد بن ولید رضی اللہ عنہ پر پڑی اور عراق میں انہیں خط تحریر کیا، چنانچہ خالد رضی اللہ عنہ نے آپ کے فرمان کو نافذ کیا اور صحرا کو عبور کرتے ہوئے اپنی فوج کے ساتھ شام پہنچے، تاریخ جس کی مثال دینے سے قاصرہے، جس کی تفصیل ہم بیان کر چکے ہیں۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف سے شام کی طرف فوجی امداد کا سلسلہ جاری رہا اور نہایت کامیاب منصوبے پیش کرتے رہے اور دشمن کے ان ٹیکنیکل اور معنوی ومادی اسالیب کا جواب دیتے رہے، جن کا مقصد آپ کو ان کے ہدف سے پھیرنا اور مشغول کرنا تھا چنانچہ قائدین روم نے کہا: ’’واللہ ہم ابوبکر کو اپنی سر زمین کی طرف فوج بھیجنے سے مشغول کر کے رہیں گے۔‘‘[2] جس کے جواب میں ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا: ’’ہم خالد بن ولید کے ذریعہ سے نصاریٰ کو ان کے شیطانی منصوبوں سے مشغول کر دیں گے۔‘‘[3] ابوبکر رضی اللہ عنہ کی توجیہات سے متعدد امور سامنے آئے: شام میں موجود اسلامی افواج کو ایک فوج میں مدغم کر دینا۔ تمام قائدین کو خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی امارت کے تابع کر دینا۔ مقام اجتماع کی تحدید۔ اس سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے نزدیک افواج کو نقل وحرکت میں لانے کا فن بالکل واضح تھا۔ جس وقت آپ نے انہیں مدینہ سے روانہ فرمایا اس وقت یہ افواج قدرے دور دراز راستوں سے روانہ ہوئیں، جو نیزے یا پنکھے کی شکل اختیار کرتی تھیں، جنہیں آج عسکری اصطلاح میں ’’حرکت انتشار‘‘ کہا جاتا ہے
[1] تاریخ الدعوۃ الی الاسلام: ۳۵۹۔ ۳۶۰۔ [2] البدایۃ والنہایۃ: ۷/۵۔ [3] البدایۃ والنہایۃ: ۷/۵۔