کتاب: سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 456
فیصلہ کن جنگ پر مجبور کیا جائے۔ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا کہ یرموک کا انتخاب کیا جائے اور لشکر اسلام وہاں جمع ہو جائے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رائے بھی عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی رائے سے موافق آئی۔[1] قائدین کا اس بات پر اتفاق ہوا کہ دشمن سے مڈبھیڑ کیے بغیر اسلامی افواج اپنے اپنے علاقوں کو خالی کر کے یرموک میں جمع ہو جائیں چنانچہ ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے حمص سے، شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ نے اردن سے اور یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما نے دمشق سے واپسی شروع کر دی اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے تدریجاً فلسطین سے واپسی شروع کی۔[2] لیکن خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے یرموک پہنچنے سے قبل واپسی مکمل نہ کر سکے کیونکہ رومی افواج ان کا پیچھا کر رہی تھیں۔ اس لیے وہ ’’بئر سبع‘‘ میں داؤ پیچ میں لگے رہے اور مسلمان رومیوں پر جوابی حملہ کرنے پر مجبور ہوئے جس کے نتیجے میں معرکہ اجنادین پیش آیا۔[3] جب ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کا خط ملا تو آپ نے انہیں جوابی خط کے ذریعہ سے حکم فرمایا کہ وہ جگہ خالی کر کے یرموک میں جمع ہو جائیں اور شہسواروں کو دیہاتوں اور بستیوں میں پھیلا دیں اور وہ ان کی رسد روک دیں۔ شہروں کا محاصرہ اس وقت تک نہ کریں جب تک میرا حکم نہ آجائے اور اگر دشمن مقابلہ آرائی پر اتر آئے تو اس کے سامنے ڈٹ کر مقابلہ کرو اور ان کے خلاف اللہ سے مدد طلب کرو اور جو فوجی مدد ان کو پہنچے گی، میں بھی اسی طرح تمہیں فوجی مدد بھیجتا رہوں گا۔[4] اور ایک روایت میں ہے: تم جیسے لوگ قلت کی وجہ سے شکست نہیں کھائیں گے۔ دس ہزار کی فوج اپنے گناہوں کی وجہ سے ہی شکست کھا سکتی ہے لہٰذا گناہوں سے بچو اور تم سب مل کر یرموک میں جمع ہو جاؤ اور تم میں سے ہر ایک اپنی فوج لے کر وہاں پہنچ جائے۔[5] ابوبکر رضی اللہ عنہ نے چاروں اسلامی افواج کو حکم دیا کہ وہ (یرموک میں) جمع ہو کر ایک لشکر کی شکل اختیار کر لیں اور مشرکین کے حملہ کا مقابلہ مسلمانوں کے حملہ سے کریں اور ان سے فرمایا: تم اللہ کے دین کے مددگار ہو اور جو اللہ کے دین کی مدد کرتا ہے اللہ اس کی مدد کرتا ہے اور جو اس کے دین کی مدد نہیں کرتا اللہ تعالیٰ اس کا ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔[6] چنانچہ ہم ابوبکر رضی اللہ عنہ کے خطوط کی روشنی میں دیکھ رہے ہیں کہ آپ نے اسلامی فوج کی نصرت وغلبہ کی اساس اللہ کی اطاعت کو قرار دیا کیونکہ شکست و رسوائی معصیت اور گناہ کے ارتکاب سے ہوتی ہے اور آپ نے اسلامی
[1] العملیات التعرضیۃ والدفاعیۃ عند المسلمین: ۱۴۸۔ [2] العملیات التعرضیۃ والدفاعیۃ عند المسلمین: ۱۴۸۔ [3] حروب الاسلام فی الشام: احمد محمد ۴۵۔ [4] العملیات التعرضیۃ والدفاعیۃ عند المسلمین: ۱۴۸۔ [5] تاریخ الطبری: ۴/۲۱۱۔ [6]