کتاب: سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 455
جدائی ضروری ہے جس کے بعد قیامت تک ملاقات نہ ہو گی۔ اے بلال! تم عمل صالح کرتے رہنا، یہ دنیا سے تمہارا زاد راہ ہوگا اور جب تک تم زندہ رہو گے تمہاری یاد باقی رکھے گا اور جب وفات پاؤ گے تو اس کا بہترین ثواب عطا کرے گا۔ بلال نے عرض کیا: اللہ آپ کو اسلامی بھائی اور احسان مند کی طرف سے جزائے خیر عطا فرمائے۔ آپ نے جو ہمیں اللہ کی اطاعت پر صبر اور حق وعمل صالح پر مداومت کا حکم فرمایا ہے تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اذان دینا نہیں چاہتا۔ پھر سعید بن عامر بن حذیم رضی اللہ عنہ کے ساتھ بلال رضی اللہ عنہ روانہ ہو گئے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سعید بن عامر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا کہ وہ یزید بن ابی سفیان سے جا ملیں۔ وہ ان سے جا ملے اور عربہ اور دائنہ کی جنگ میں ان کے ساتھ شریک ہوئے۔[1]
جہادی وفود کے آنے کا سلسلہ مدینہ میں جاری تھا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ انہیں مہمات پر روانہ کرتے رہتے۔ ان وفود میں بعض دیہات کے رہنے والے تھے جن میں جہالت اور سختی پائی جاتی تھی، جس کی وجہ سے مدینہ کے صحابہ اور تابعین کو اذیت پہنچتی تھی کیونکہ ان کی ابھی اسلامی تربیت مکمل نہ ہو سکی تھی۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ان کی شکایات پہنچائی جاتیں لیکن کثرت وفود کے باوجود کوئی نزاع رونما نہیں ہوا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مدینہ کے لوگوں سے اپیل کی[2] اور فرمایا: میں تمہیں اللہ کی قسم دلاتا ہوں جو مسلمان میری یہ اپیل سنے اور اپنے اوپر میرا حق سمجھتا ہے، وہ ان کی زبان کی تیزی اور شست وناپسندیدہ حرکات برداشت کرے جب تک کہ یہ لوگ شرعی حد کو نہ پہنچیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ سے ہمارے دشمنوں ہرقل روم کے لشکر کو ہلاک کرنے والا ہے۔ یہ تمہارے بھائی ہیں اگر ان سے کسی پر زیادتی ہو جائے تو برداشت کرے۔ کیا یہ صحیح رائے اور انجام کے اعتبار سے بہتر نہیں کہ ان کے ذریعہ سے مدد و غلبہ ملے؟
تمام مسلمانوں نے یک زبان ہو کر کہا: کیوں نہیں، ضرور۔
فرمایا: تو پھر یہ تمہارے دینی بھائی ہیں اور دشمن کے مقابلہ میں تمہارے معاون ہیں۔ ان کا تم پر حق ہے لہٰذا تم برداشت کرو۔ پھر آپ منبر سے اتر آئے۔[3]
خالد رضی اللہ عنہ کو شام کی طرف روانہ کرنا اور معرکہ اجنادین ویرموک:
شام میں اسلامی فوج کی قیادت رومی فوج کی نقل وحرکت پر نگاہ رکھے ہوئی تھی۔ قائدین کو صورت حال کی خطرناکی کا احساس ہوا۔ انہوں نے جولان میں قائدین کی کانفرنس بلائی اور ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے خلیفہ کو خط کے ذریعہ سے صورت حال سے آگاہ کیا اور اس کانفرنس میں یہ قرارداد پاس کی کہ تمام مفتوحہ علاقوں کو خالی کر دیا جائے اور اسلامی فوج ایک جگہ اکٹھی ہو جائے تاکہ رومیوں کے منصوبہ کو ناکام بنایا جا سکے اور انہیں لشکر اسلام کے ساتھ
[1] فتوح الشام للازدی: ۳۵۔۳۸، بتصرف۔
[2] التاریخ الاسلامی: ۹/۲۲۴۔
[3] التاریخ الاسلامی للحمیدی: ۹/۲۲۳۔