کتاب: سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 454
’’اے ہاشم! ہم بڑے بوڑھے کی رائے، مشورہ اور حسن تدبیر سے استفادہ کرتے تھے اور نوجوانوں کی قوت، طاقت اور صبر پر بھروسہ کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ نے تمہارے اندر یہ سب خصائل جمع کر دیے ہیں، تم ابھی نو عمر اور خیر کی طرف بڑھنے والے ہو۔ جب دشمن سے مڈبھیڑ ہو تو ڈٹ کر مقابلہ کرنا اور صبر کا مظاہرہ کرنا اور یاد رکھو اللہ کی راہ میں جو قدم بھی تم اٹھاؤ گے، جو خرچ بھی کرو گے اور جو تکلیف، تھکاوٹ اور بھوک وپیاس تمہیں لاحق ہو گی، اس کے بدلے اللہ تعالیٰ تمہارے نامہ اعمال میں عمل صالح لکھے گا۔ اللہ تعالیٰ نیکو کار لوگوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔‘‘ ہاشم نے عرض کیا: اگر اللہ نے میرے ساتھ خیر چاہی تو مجھے ایسا ہی کرے گا اور میں ایسا ہی کروں گا، قوت و طاقت اللہ ہی عطا کرنے والا ہے اور مجھے امید ہے کہ اگر میں قتل نہ کیا گیا تو میں دشمن کو قتل کروں گا۔ پھر ان شاء اللہ قتل کیا جاؤں گا۔ پھر ان سے ان کے چچا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’اے بھتیجے! تم جو بھی نیزے چلاؤ اور جو ضرب بھی لگاؤ اس سے مقصود اللہ کی رضا ہو۔ اور یاد رکھو تم دنیا سے ہدایت یاب ہو کر دنیا سے رخصت ہونے والے ہو اور عنقریب اللہ کی طرف لوٹنے والے ہو اور دنیا سے لے کر آخرت تک تمہارے ساتھ تمہارے اچھے کارنامے یا اعمال صالحہ ہوں گے جو تم نے کیے ہیں۔‘‘ ہاشم نے کہا: چچا جان! اس کے علاوہ کی مجھ سے توقع نہ کریں۔ اگر میرا قیام و سفر، صبح وشام کی نقل وحرکت، نیزے مارنا اور تلوار چلانا لوگوں کو دکھانے کے لیے ہو تو پھر میں خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہو جاؤں گا۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس سے روانہ ہوئے اور ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ سے جا ملے، ان کے پہنچنے سے مسلمان خوش ہو گئے۔[1] ہاشم بن عتبہ کے کوچ کر جانے کے کچھ دن بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ لوگوں میںا علان کریں، انہوں نے اعلان کیا: مسلمانو! سعید بن عامر بن حذیم رضی اللہ عنہ کے ساتھ شام کی مہم کے لیے تیار ہو جاؤ۔ چند دنوں میں سات سو افراد تیار ہو گئے اور جب سعید بن عامر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے ساتھ کوچ کرنے کا ارادہ کیا تو بلال رضی اللہ عنہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اگر آپ نے مجھے اس لیے آزاد کیا تھا کہ میں آپ کے ساتھ رہوں اور آپ مجھے خیر کی دلی خواہش کی تکمیل سے روک دیں، تو میں آپ کے ساتھ مدینہ میں رہنے کے لیے تیار ہوں اور اگر اللہ واسطے آزاد کیا تھا تاکہ میں اپنے نفس کا مالک رہوں اور نفع بخش چیز کے سلسلہ میں نقل وحرکت کروں، تو آپ مجھے اجازت دیں کہ میں اپنے رب کی راہ میں جہاد کروں۔ مجھے بیٹھے رہنے سے جہاد زیادہ محبوب ہے…… ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر تمہاری خواہش جہاد کرنے کی ہے تو میں تمہیں ٹھہرنے کا کبھی حکم نہیں دوں گا۔ میں تمہیں اذان کے لیے چاہتا ہوں اور مجھے تمہاری جدائی سے وحشت محسوس ہوتی ہے لیکن ایسی
[1] فتوح الشام للازدی: ۳۳۔۳۵۔