کتاب: سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 453
نصرت نہیں عطا کی، ہماری تو حالت یہ تھی کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد کرتے اور ہمارے پاس صرف دو گھوڑے ہوتے اور اونٹ پر بھی باری باری سواری کرتے۔ احد کے دن ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور ہمارے پاس صرف ایک ہی گھوڑا تھا جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوار تھے لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ ہمیں ہمارے دشمن پر غلبہ عطا فرماتا اور ہماری مدد کرتا تھا۔ عمرو! یاد رکھو اللہ کا سب سے بڑا مطیع وہ ہے جو معصیت سے سب سے زیادہ بغض رکھے۔ خود بھی اللہ کی اطاعت کرو اور اپنے ساتھیوں کو بھی اطاعت الٰہی کا حکم دو۔‘‘[1] ابوبکر رضی اللہ عنہ نے شام میں اسلامی فوج کی مدد کے لیے مجاہدین، اسلحہ، گھوڑے اور دیگر ضروریات کی چیزیں بھیجنا شروع کیں۔ ہاشم بن عتبہ بن ابی وقاص کو بلایا اور فرمایا: اے ہاشم! تمہاری سعادت مندی اور نیک بختی ہے کہ تم ان لوگوں میں سے ہو جس سے امت اپنے دشمن مشرکین کے خلاف جہاد میں مدد حاصل کر رہی ہے اور جس کی خیر خواہی، وفاداری، عفت اور قوت پر خلیفہ کو اعتماد و بھروسہ ہے۔ مسلمانوں نے مجھے خط لکھ کر اپنے دشمن کفار کے مقابلہ میں مدد طلب کی ہے تو تم اپنے ساتھیوں کو لے کر ان کے پاس جاؤ، میں لوگوں کو تمہارے ساتھ جانے پر تیار کر رہا ہوں۔ تم یہاں سے روانہ ہو کر ابوعبیدہ یا یزید سے جا ملو۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو جمع کر کے خطاب فرمایا، اللہ کی حمدوثنا کے بعد فرمایا: ’’اما بعد! یقینا تمہارے مسلمان بھائی خیر و عافیت سے ہیں، محفوظ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے دشمن کے دلوں میں ان کا رعب بٹھا دیا ہے، وہ قلعہ بند ہو گئے ہیں، ان کی طرف سے پیغام رساں یہ خبر لائے ہیں کہ شاہ روم ہرقل نے ان کے سامنے سے بھاگ کر شام کے کنارے ایک بستی میں پناہ لے لی ہے، انہوں نے ہمیں یہ خبر بھیجی ہے کہ ہرقل نے اس جگہ سے بہت بڑی فوج ان سے مقابلہ میں روانہ کی ہے۔ میرا ارادہ ہے کہ تمہارے مسلمان بھائیوں کی مدد کے لیے تمہاری فوج روانہ کروں، اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ سے ان کی پشت مضبوط کرے گا اور دشمن کو ذلیل کرے گا اور ان کے دلوں میں ان کا رعب ڈال دے گا۔ اللہ تم پر رحم فرمائے۔ ہاشم بن عتبہ بن ابی وقاص کے ساتھ تیار ہو جاؤ اور اللہ سے اجر و خیر کی امید رکھو۔ اگر تم کامیاب ہوئے تو فتح وغنیمت حاصل ہو گی اور اگر ہلاک ہوئے تو شہادت و کرامت حاصل ہو گی۔‘‘ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنے گھر آئے اور لوگ ہاشم بن عتبہ کے پاس جمع ہونے لگے اور ان کی تعداد بڑھ گئی۔ جب ایک ہزار ہو گئے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انہیں کوچ کرنے کا حکم دے دیا۔ رخصت ہوتے وقت ہاشم ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سلام کیا، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا:
[1] خطب ابی بکر الصدیق: محمد احمد عاشور ۹۲۔