کتاب: سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 45
دریافت کیا: کیا واقعی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات کہی ہے؟ لوگوں نے کہا: ہاں، آپ نے فرمایا: اگر واقعی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات کہی ہے تو سچ ہے۔ لوگوں نے کہا: کیا آپ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ وہ راتوں رات بیت المقدس گئے اور صبح ہونے سے پہلے واپس آگئے؟ فرمایا: ہاں ہم تو اس سے بڑی بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ صبح وشام آپ پر آسمان کی خبروں کا نزول ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے آپ کو صدیق سے ملقب کیا گیا۔[1] آپ کا ’’صدیق‘‘ نام ہونے پر امت کا اجماع ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق میں آپ نے سبقت کی اور صدق و سچائی کو آپ نے لازم پکڑا، کبھی اس سلسلہ میں کوتاہی ولغزش کا شکار نہ ہوئے۔[2] آپ اس صفت سے ہمیشہ متصف رہے۔ شعراء اس سلسلہ میں آپ کی مدح خوانی میں رطب اللسان ہیں۔ ابومحجن ثقفی رضی اللہ عنہ نے کہا: وَسُمِّیْتَ صدِّیقا وکلُّ مہاجِرٍ سواک یُسمّٰی باسمہ غیر منکرِ ’’آپ کو ’’صدیق‘‘ سے ملقب کیا گیا اور آپ کے علاوہ دیگر مہاجرین کو بلا کسی نکیر کے ان کے ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔‘‘ سبقت الی الاسلام واللہ شاہدٌ وکنت جلیسا فی العریش المُشَہَّرِ[3] ’’آپ نے اسلام کی طرف سبقت کی اور اللہ اس پر شاہد ہے اور بدر کے دن مشہور سائبان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم نشین تھے۔‘‘ اور مشہور شاعر اصمعی (عبدالملک بن قریب باہلی)نے کہا: ولکنی أحبُّ بکل قلبی واعلم ان ذاک من الصَّواب رسولَ اللہ والصدیق حُبًّا بہ أرجو غدا حُسن الثواب[4] ’’لیکن میں یہ جانتے ہوئے کہ یہی حق ہے، پورے دل سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق سے ایسی محبت کرتا ہوں کہ کل قیامت کے دن اس کے ذریعہ سے اچھے ثواب کی امید ہے۔‘‘
[1] اخرجہ الحاکم۳/ ۶۲،۶۳ وصححہ و أ قرہ الذہبی۔ [2] الطبقات الکبری: ۲/۱۷۔ [3] أسد الغابۃ ۳؍۳۱۰۔ [4] ابوبکر الصدیق: للطنطاوی، ۴۹۔