کتاب: سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 44
ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا:
(( ابشر فانت عتیق اللہ من النار۔)) [1]
’’(ابوبکر) تم خوش ہو جاؤ جہنم سے تم اللہ کے عتیق (آزاد کردہ) ہو۔‘‘
اسی روز سے آپ کا نام عتیق پڑ گیا۔[2]
مؤرخین نے اس لقب کے سلسلہ میں دیگر بہت سے اسباب ذکر کیے ہیں۔ بعض نے کہا: آپ کے حسن وجمال کی وجہ سے آپ کو عتیق کہا گیا۔[3] بعض نے کہا: آپ کو شرف ومنزلت اور خیر وبھلائی میں آگے ہونے کی وجہ سے عتیق کہا گیا۔[4] اور بعض نے کہا: چہرہ کے موزوں اور خوبصورت ہونے کی وجہ سے عتیق کہا گیا۔[5]اور بعض نے کہا کہ آپ کی والدہ کے یہاں کوئی بچہ زندہ نہیں رہتا تھا، لہٰذا جب آپ کی ولادت ہوئی تو آپ کو کعبہ کے سامنے کر کے دعا کی: الٰہی یہ بچہ موت سے تیرا عتیق ہے، اسے مجھے عطا فرما، محروم نہ کرنا۔[6]
ان اقوال میں سے بعض کے اندر توفیق وتطبیق ہو سکتی ہے کیونکہ ابوبکر رضی اللہ عنہ حسن وجمال کے پیکر، اعلیٰ حسب ونسب کے مالک، صاحب جو د و کرم تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت کے پیش نظر آپ جہنم سے اللہ کے عتیق (آزاد کردہ) تھے۔[7]
صدیق (سچائی کا پیکر):
یہ لقب آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا فرمایا، چنانچہ انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھ ابوبکر وعمر اور عثمان رضی اللہ عنہم احد پہاڑ پر چڑھے تو وہ ہلنے لگا، تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( اثبت احد فانما علیک نبی وصدیق وشہید ان۔)) [8]
’’اے احد! ٹھہر جا، اس وقت تیرے اوپر نبی، صدیق اور دو شہید ہیں۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلہ میں کثرت تصدیق کی وجہ سے آپ کو صدیق کا لقب ملا۔ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسراء ومعراج کاواقعہ پیش آیا اور صبح کے وقت آپ نے اس کو لوگوں سے بیان کیا تو کچھ لوگ جو ایمان لا چکے تھے مرتد ہو گئے، لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے اور کہا: آپ کو اپنے ساتھی کی خبر ہے؟ ان کا تو یہ زعم ہے کہ وہ راتوں رات بیت المقدس گئے، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے
[1] رواہ الترمذی فی المناقب: ۳۶۷۹، وصححہ الالبانی رحمہ اللہ فی السلسلۃ: ۱۵۷۴۔
[2] اصحاب الرسول ، محمود المصری ۱؍۵۹۔
[3] المعجم الکبیر للطبرانی: ۱/۵۲۔
[4] الاصابۃ: ۱/۱۴۶۔
[5] المعجم الکبیر: ۱/۵۳، الاصابۃ: ۱/۱۴۶۔
[6] الکنی والاسماء للدُّولابی: ۱/۶، بحوالہ خطب ابی بکر، محمد احمد عاشور، جمال الکومی:۱۱۔
[7] تاریخ الدعوۃ الی الاسلام فی عہد الخلفاء الراشدین، دکتور یسری محمد ھانی: ۳۶۔
[8] صحیح البخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی، باب فضل ابی بکر: ۵/۱۱۔