کتاب: سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 38
سے ہٹا کر شام کے محاذ پر لگانا اور معرکہ اجنادین اور یرموک کے واقعات اور ان فتوحات سے خارجہ سیاست کے سلسلہ میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعض نقوش کو واضح کیا۔ دوسری اقوام کے اندر حکومت کی ہیبت وخوف بٹھانا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس جہاد کا حکم فرمایا تھا، اس کو جاری رکھنا، مفتوحہ علاقوں میں عدل وانصاف قائم کرنا، ان کے باشندوں کے ساتھ نرمی برتنا، جبر و کراہ کو دور کرنا، بشریت اور دعاۃ ومصلحین کے درمیان حواجز اور رکاوٹوں کو ختم کرنا۔ اسی طرح صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے بعض جنگی حکمت عملی کو واضح کیا ہے، مثلاً دشمن کے ملک جب تک مسلمانوں کی فرماں برداری نہ قبول کر لیں اندر تک نہ گھسنا، جنگ کی تیاری اور فوج جمع کرنے کی قدرت، مسلسل جنگی امداد اور کمک کو منظم کرنا، جنگ کے مقصد کو متعین کرنا، جنگی میدان کو اوّلیت دینا، میدان معرکہ سے برطرفی، اسالیب قتال میں بتدریج تبدیلی لانا، اپنے اور قائدین جیش کے درمیان اتصال کو محفوظ ومضبوط رکھنے کا اہتمام، آپ نے قائدین جنگ کو جو ہدایات اور وصیتیں کی ہیں ان کی روشنی میں اللہ تعالیٰ، قائدین اور فوج کے حقوق کو میں نے بیان کیا ہے۔ زندگی کے آخری ایام میں آپ کا خلافت کے لیے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو منتخب فرمانے اور آپ کے کلمات کو بیان کیا ہے۔ آپ کا آخری کلمہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد تھا: { تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ}
’’اے اللہ مسلمان ہونے کی حالت میں میری وفات فرما اور صالحین کے زمرے میں شامل کر دے۔‘‘
میں نے اس کتاب میں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ صدیق رضی اللہ عنہ نے اسلام کیسے سمجھا اور کیسے اس کو عملی جامہ پہنایا اور اپنے دور میں رونما ہونے والے حالات پر کس طرح اثر انداز ہوئے اور آپ کی شخصیت کے مختلف گوشوں؛ سیاسی، عسکری، اداری اور اسلامی معاشرہ میں آپ کی خلافت سے قبل اور خلافت کے بعد کی زندگی پر روشنی ڈالی ہے اور بحیثیت ایک ممتاز اور نادر روزگار حاکم کے آپ کی داخلی اور خارجی سیاست کے کارناموں اور اداری اسلوب کا جائزہ لینے کا اہتمام کیا ہے اور واضح کیا ہے کہ آپ کے دور میں دارالقضاء کا کس طرح آغاز ہوا تاکہ ہم ان تصورات کو جان سکیں جو اس کے اندر اور حکومت کے دیگر اداروں میں راشدی دور اور اسلامی تاریخ کے اندر رونما ہوئے ہیں۔ یہ کتاب ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی عظمت کی واضح دلیل پیش کرتی ہے اور قارئین کے لیے یہ ثابت کرتی ہے کہ آپ ایمان، علم، فکر، بیان، اخلاق اور کارنامے ہر اعتبار سے عظیم تھے۔ آپ نے اپنے اندر ہر طرح کی عظمتوں کو جمع کر رکھا تھا اور آپ کو یہ عظمت، فہم اسلام، عملاً اس کی تطبیق اور اللہ رب العالمین سے عظیم تعلق، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح اور سچی اتباع سے حاصل ہوئی تھی۔
یقینا ابوبکر رضی اللہ عنہ ان ائمہ میں سے ہیں جو لوگوں کے لیے نقوش راہ متعین کرتے ہیں اور لوگ اس دنیا کے اندر ان کے ا قوال و افعال کی اقتدا کرتے ہیں۔ آپ کی سیرت ایمان، صحیح اسلامی تڑپ اور دین کے فہم سلیم کے قوی ترین مصادر میں سے ہے۔ اسی لیے میں نے آپ کی شخصیت اور آپ کے دور کو پڑھنے میں بھرپور محنت کی ہے لیکن مجھے عصمت کا دعویٰ نہیں اور نہ غلطی ولغزش سے انکار ہے۔ اللہ کی رضا اور اس کے ثواب کے حصول کے لیے